محمود و ایاز
جہاں میں بار خدایا کوئی وکیل نہ ہو
وکیل ہو تو وکالت میں بے عدیل نہ ہو
جو بے عدیل بھی ہو جائے تو جمیل نہ ہو
جمیل ہو تو سیاست میں کچھ دخیل نہ ہو
یہ خوبیاں جو بیک وقت کوئی پاتا ہے
دماغ اس کا یقیناً خراب جاتا ہے
ہر اک کو دیکھنے لگتا ہے وہ حقارت سے
کسی سے بات بھی کرتا ہے گر تو نخوت سے
ہر اک کو کرتا ہے مرعوب اپنی فطرت سے
قدم زمین پہ رکھتا نہیں رعونت سے
ضمیر قیصر و ہامان بن کے رہتا ہے
وہ اپنے عہد کا شیطان بن کے رہتا ہے
کبھی کبھی اسے ہوتا ہے اپنی ذات پہ ناز
کبھی گھمنڈ لیاقت پہ اور صفات پہ ناز
کبھی نمازیوں میں صوم اور صلوٰۃ پہ ناز
غرض کہ اس کو ہے اپنی ہر ایک بات پہ ناز
یہی جو حال رہا اس کی خود ستائی کا
عجب نہیں کہ وہ دعویٰ کرے خدائی کا
اور اس کے ساتھ جو ہے اک بہت بڑا وصفی
منافقت میں ہی جس کی تمام عمر گئی
پئے نمود رہی جس کو روز بے چینی
کسی نے خوب کسی اس کو دیکھ کر پھبتی
خدا کا شکر کہ اک عہد حیلہ ساز ملا
خدا کا شکر کہ محمود کو ایاز ملا