محفلوں میں جا کے گھبرایا کیے
محفلوں میں جا کے گھبرایا کیے
دل کو اپنے لاکھ سمجھایا کیے
یاس کی گہرائیوں میں ڈوب کر
زخم دل سے خود کو بہلایا کیے
تشنگی میں یاس و حسرت کے چراغ
غم کدے میں اپنے جل جایا کیے
خود فریبی کا یہ عالم تھا کہ ہم
آئینہ دنیا کو دکھلایا کیے
خون دل عنوان ہستی بن گیا
ہم تو اپنے ساز پر گایا کیے