محفل شب
کتنی ویران ہے یہ محفل شب
نہ ستارے نہ چراغ
اک گھنی دھند ہے گردوں پہ محیط
چاند ہے چاند کا داغ
پھیلتے جاتے ہیں منظر کے خطوط
بجھتا جاتا ہے دماغ
راستے گھل گئے تاریکی میں
توڑ کر زعم سفر
کون حد نظر دیکھ سکے
مٹ گئی حد نظر
سیکڑوں منزلیں طے کر تو چکے
لیکن اب جائیں کدھر
آسماں ہے نہ زمیں ہے شاید
کچھ نہیں کچھ نہیں
ان خلاؤں میں پکاریں تو کسے
کوئی سنتا ہی نہیں
ایک دنیا تو ہے یہ بھی لیکن
اپنی دنیا سی نہیں
دوستو آؤ قریب آ جاؤ
آ کے دیکھو تو سہی
ایک حلقے میں بجھی آنکھوں کو
لا کے دیکھو تو سہی
شاید آواز پہ آواز آئے!
دے کے دیکھو تو سہی