محفل دوست میں گو سینہ فگار آئے ہیں

محفل دوست میں گو سینہ فگار آئے ہیں
صورت‌ نغمہ بہ اندازۂ بہار آئے ہیں


اس نظر سے کہ ترے ظلم کی تشہیر نہ ہو
بے قراری میں لیے دل کا قرار آئے ہیں


ایک پندار خودی جس کو بچا رکھا تھا
آج ہم وہ بھی تری بزم میں ہار آئے ہیں


ظلمت‌ شام خزاں یاد کرے گی برسوں
ہم جب آئے ہیں گلستاں بہ کنار آئے ہیں


اے رفیقان رہ شوق کہاں ہو بولو
ہم تمہیں شہر و بیاباں میں پکار آئے ہیں


ہے پر آشوب فضا پھر بھی کسی جانب سے
دل کے ویرانے میں پیغام بہار آئے ہیں


غم منزل میں بھٹکتے ہی گزر جاتی ہے
چھوڑ کر جب سے تیری راہ گزر آئے ہیں


زندگی روز نئی لگتی ہے دل والوں کو
گرچہ ہر روز وہی لیل و نہار آئے ہیں


دیکھنا لوٹی گئی کون سی بستی یارو
اڑ کے دل تک جو کدورت کے غبار آئے ہیں


اپنے انجام سے خوش اپنی وفا پر نازاں
مسکراتے ہوئے ہم جانب دار آئے ہیں