مہابھارت کے قدیم عربی فارسی ترجمے
ہندوستان ایک قدیم تہذیبی ملک ہے جو ہزارہا سال کے تمدنی آثار رکھتا ہے۔ یہاں اہل عرب کی آمد اسلام سے بہت پہلے سے جاری ہے اور بھارت کے لوگ بھی عرب اور وسط ایشیا کے ملکوں میں صدیوں سے آناجانا کررہے ہیں۔ موجودہ ہندوستانیوں کے خون میں جس طرح بیرون ملک سے آنے والوں کا خون شامل ہے، اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی ہندوستانیوں کی آمد ورفت اور اختلاط کے سبب وہاں کی مٹی میں ہندوستانی مٹی کی سوندھی مہک شامل ہوچکی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آمدورفت تحقیق کا ایک موضوع ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں بسنے والے سبھی مذاہب کے لوگوں نے ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ایک دوسرے کی مذہبی کتابوں کو پڑھا ہے، ان کے تراجم کئے ہیں اور اشاعت کی ہے۔ محمود غزنوی کی فوج کے ساتھ یہاں آنے والے فلسفی ومورخ البیرونی نے ’’کتاب الہند‘‘ لکھ کربھارت کی تہذیب وتمدن اور یہاں کے علوم وفنون سے دنیا کو آگاہ کرنے کا پہلا کام کیا تھا۔ حالانکہ اسی دور میں بغداد کے عباسی خلفاء بھی ہندوستانی کتابوں کے تراجم کرارہے تھے اور انھوں نے ہندوستان کے علم نجوم وطب سے استفادے کی کوشش کی تھی۔ بھارت میں مغل حکمراں جلال الدین محمد اکبر کو علم پروری کے لئے جاناجاتا ہے مگر اس نے علمی کتابیں کم اور آرٹ کی کتابوں کی طرف زیادہ توجہ دی تھی۔ اکبر نے مہابھارت کا ترجمہ ’’رزم نامہ‘‘ کے نام سے کرایا تھا۔ یہ قدیم داستان کورووں اور پانڈووں کے درمیان کی لڑائی کی ہے، جو پشتہاپشت سے عوامی زبان پر رائج ہے اور یہ جنگ ضرب المثل کے طور پر بیان کی جاتی ہے۔ جنگ کے دوران شری کرشن نے ارجن کی رتھ بانی کی خدمت انجام دی تھی اور اس بیچ انھوں نے انھیں بہت سی نصیحتیں کی تھیں جن کامجموعہ’’بھگوت گیتا‘‘ ہے۔ ’’بھگوت گیتا‘‘ کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں فیضی نے کیا تھا۔ مہابھارت کی جنگ حقیقتاً ہوئی تھی یا نہیں اور اگر ہوئی تھی تو کب ہوئی تھی، اس بارے میں کسی کو پتہ نہیں، کیونکہ اس کے تاریخی شواہد اب تک نہیں مل پائے ہیں مگر ممکن ہے کوئی بڑی جنگ قبل تاریخ ہوئی ہوجس کی داستان لوگوں کی زبان پر آگئی ہو۔ ہندو عقیدے میں مہابھارت کو ایک مقدس کتاب مانا جاتا ہے او ر اکبر چونکہ مذہبی رواداری کا قائل تھا اور ہندووں کو بھی خوش رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے سیاسی مقصد کے پیش نظر اس کتاب کا ترجمہ کرایا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ قصے کہانیوں کو اس نے حرم سرا کی خواتین اور امراء کی ضیافت طبع کے لئے فارسی کا روپ دیا ہو، کیونکہ بیشتر امراء سنسکرت سے واقف نہیں تھے۔ اس نے جن کتابوں کے تراجم سنسکرت سے فارسی میں کرائے تھے ان میں مہابھارت، رامائن اور اپنیشد بھی شامل تھیں۔ ایک محقق شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں، ’’اکبر نے ادبیات کی سرپرستی کی۔ سنسکرت، عربی، ترکی، یونانی سے فارسی میں کتابیں ترجمہ کرائیں۔ سنسکرت سے جوکتابیں ترجمہ ہوئیں، ان میں رامائن، مہابھارت، بھاگوت گیتا، اتھروید اور ریاضی کی کتاب لیلاوتی مشہور ہیں۔‘‘ (رودکوثر، صفحہ ۱۶۴) ہندووں کی مذہبی کتابوں کے تراجم عہد اکبری میں اکبر کے حکم سے جن کتابوں کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا تھا ان کی تعداد مورخین نے پندرہ بتائی ہے۔ جن میں رزم نامہ کے علاوہ اتھروید ہے جس کا ترجمہ ملاعبدالقادربدایونی نے کیا تھا۔ بھگوت گیتا کا ترجمہ فیضی نے کیا تھا۔ گنگادھر کا ترجمہ ابوالفضل نے کیا تھا۔ یوگ بششٹ کا ترجمہ مولانا فرنیولی، کتھا سریتا ساگرکا ملابدایونی، کشن جوشی کا ترجمہ ابوالفضل نے کیا تھا، جب کہ لیلاوتی اور نل دمن کا ترجمہ فیضی نے کیا تھا۔ مہیش موہانند کا ابوالفضل نے کیا تھا۔ سنگھاسن بتیسی، مہابھارت اور رامائن کو سنسکرت سے فارسی میں ڈھالا تھاملا عبدالقادر بدایونی نے۔ سنگھاسن بتیسی کو ’’نامۂ خرد افزا‘‘ کا نام دیا گیا تھا یعنی عقل بڑھانے والا مضمون۔ علاوہ ازیں کچھ دوسری کتابیں بھی سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کی گئی تھیں۔ غورطلب ہے کہ مورخ محمد قاسم فرشتہ نے اپنی کتاب تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ سلطان فیروز شاہ تغلق نے کچھ سنسکرت کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرایا تھا۔ اکبر نے مہابھارت کا جو فارسی ترجمہ کرایا تھا اس کانام ’’رزم نامہ‘‘ رکھا تھا، دوسرے الفاظ میں جنگ نامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی ماہر خطاطوں سے خطاطی کرائی گئی تھی اور ماہر فن مصوروں سے خوبصورت وجاذب نظر تصویریں بنوائی گئی تھیں۔ رزم نامہ کی خصوصیاتاکبر کے رزم نامہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فارسی میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ تھا۔ اس سے پہلے کسی ترجمے کی خبر نہیں ہے۔ البتہ عربی میں ترجمہ ہوچکا تھا۔ یہ سیدھا ترجمہ نہیں تھا بلکہ adaptationتھا۔ ۱۵۸۲ء میں اکبر نے بدایونی کو ترجمہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس نے ۱۵۸۴ء سے اس کام کو شروع کردیا۔ ۱۵۸۶ء میں یہ ترجمہ مکمل ہوگیا اور خطاطی وآرائش بھی۔ پہلی کاپی میں مصور مشفق نے تصویریں بنائی تھیں بعد میں اس کی بہت سی کاپیاں تیار کرائی گئی تھیں جن میں سے ایک کاپی بعد میں جے پور کے راجہ سوائی مان سنگھ دوئم کے پاس پائی گئی تھی، یہ اب بھی سیٹی پیلس میوزیم، جے پور میں موجود ہے۔ اکبر نے ایک کاپی اپنے درباری عبدالرحیم خان خاناں کو بھیجی تھی اور دوسرے درباریوں اور امراء کو بھی رزم نامہ کی کاپیاں تحفے کے طور پر بھیجی گئی تھیں۔ خانِ خاناں، عالم وعلم دوست انسان تھا اور اس کی لائبریری میں تمام اہم کتابیں موجود ہوتی تھیں لہٰذا بادشاہ بھی ہر کتاب کی ایک کاپی محفوظ رکھنے کے لئے ضرور بھیج دیتا تھا۔ ممبئی کے انجمن اسلام کی کریمی لائبریری میں ہندووں کی سومذہبی کتابیں موجود ہیں جو اب نایاب ہوچکی ہیں ان میں ایک گیتا کا منظوم ترجمہ بھی ہے جس کا ٹائٹل ہے ’’گلدستہ ٔ حقیقت‘‘ ۔ یہ ترجمہ غرل کے اسلوب میں ہے۔ گیتا کے اردو اور فارسی میں بہت سے ترجمے کئے گئے ہیں جن میں سے کچھ منثور تو کچھ منظوم ہیں۔ حال ہی میں معروف شاعر انورجلالپوری نے بھی منظوم ترجمہ کیا ہے جو شائع بھی ہوچکا ہے۔ رزم نامہ کی تصاویر اور ان کی اہمیترزم نامہ میں جو تصویریں بنائی گئی ہیں، وہ بے حد خوبصورت اور جاذب نظر ہیں اور ہند، ایرانی ومغل مصوری کا شاہکار ہیں۔ ایک تصویر میں بھیشم اور یدھشٹر کو محو گفتگو دکھایا گیا ہے اور ان کے پیچھے کچھ لوگ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ یہ تصویر فتو کی بنائی ہوئی ہے، جب کہ دوسری تصویر میں بھی وہی دونوں صلاح ومشورے میں ہیں مگر یہ تصویر دائود نامی مصور کی بنائی ہوئی۔ یہ تصویریں ۱۵۹۸ء کے نسخے کی ہیں۔ ۱۶۱۶ء کے رزم نامہ کی ایک تصویر میں دریودھن اور بھشم کی لڑائی دکھائی گئی ہے۔ ایک تصویر میں شری کرشن کو یدھشٹر اور ہستیناپور کے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک تصویر میں بھشم کی موت کو ظاہر کیا گیا ہے اور اس کی لاش کے پاس کرشن ودیگر لوگوں کو بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ تصاویر میں جنگیں دکھائی گئی ہیں اور جنگ کی بہت حسین منظر کشی کی گئی ہے۔ ایک تصویر میں کرشن کا حرم دکھایا گیا ہے، جس میں بہت سی خواتین زرق و برق لباس میں دکھائی دے رہی ہیں۔ کئی تصاویر میں کرشن کو دکھایا گیا ہے اور ان کے بدن کی رنگت نیلی دکھائی گئی ہے۔ ان تصاویر کا خاص پہلو یہ ہے کہ ان میں کلچر وہی نظر آتا ہے جو عہد اکبری میں رائج تھا۔ لباس، مکانات کا آرکٹکچر اور فرش وقالین سب کچھ مغل عہد کے دکھائی دیتے ہیں۔ گنبد، جالیاں، محرابی دروازے اور تخت وتاج سب وہی ہیں جو مغل دور میں دکھائی دیتے تھے۔ عربی میں مہابھارتبعض مورخین کا خیال ہے کہ مہابھارت کا عربی ترجمہ گیارہویں صدی عیسوی میں موجو دتھا اور یہ فرانس کے ایک کتب خانے میں دستیاب ہوا ہے۔ یہ ۱۰۲۶ء میں کسی شہزادی کے حکم سے کیا گیا تھا اور مترجم کا نام ابوصالح تھا۔ اسی سے فارسی میں مہابھارت کا ترجمہ کیا گیا اور فارسی سے فرنچ میں ترجمہ ہوا۔ اس میں ایک مقام پر تحریر تھا’’بھارت کے بادشاہوں کی تاریخ اور اس کی فہرست جانکاری کے لئے دی جارہی ہے جو ہمیں دستیاب ہوئی ہے۔‘‘ اصل میں عربی ترجمہ وسط ایشیا کے شہر جرجان میں دستیاب ہوا تھا، جس کی جانکاری وہاں کے لائبریرین ابوالحسن علی نے دی تھی۔ ۱۸۴۵ء میں پہلی بار فرنچ میں مہابھارت کا ترجمہ شائع ہوا جو سنسکرت نہیں بلکہ عربی کے اسی نسخے سے کیا گیا تھا اور اسے شائع کیا تھا M.Reinaud, Membre de l'Institut, Paris نے۔ مہابھارت کا عربی ترجمہ گیارہویں صدی عیسوی میں کیسے ہوگیا، جب کہ دلی میں مسلم سلطنت کا قیام بھی اس وقت تک نہیں ہوا تھا؟ اس سوال کا بالکل ٹھیک ٹھیک جواب ملنا مشکل ہے مگر اس عہد میں سندھ میں مسلمانوں کی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور جاٹو ں کا ایک بڑا طبقہ عرب وایران میں آباد تھا، ایسے میں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اہل عرب اکثر سمندری راستے سے بھارت، چین، لنکا وغیرہ کے سفر پر قدیم دور سے آرہے ہیں، ایسے میں ان کی مہابھارت تک رسائی ناممکن نہیں لگتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مہابھارت کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ بغداد کے ان ترجمہ گاہوں میں ہوا ہوجو خلفاء بنو عباسیہ کے عہد میں قائم کئے گئے تھے اور سرکار ان کی سرپرستی کیا کرتی تھی۔ یہاں ہندوستانی اہل علم کو ترجمہ کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ نویں صدی میں ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید بیمار ہوا تو اس کا علاج کرنے والوں میں دو ہندستانی وید بھی شامل تھے۔ عہد نبوی میں مدینہ میں ہندوستانی ویدوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ کا علاج بھی ایک ہندوستانی وید نے کیا تھا۔ مغلوں بادشاہوں کا ذوق علمی اور سنسکرتسنسکرت، بھارت کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے مگر یہ کبھی بھی عوام کی زبان نہیں رہی۔ سنسکرت ماضی میں درباروں کی زبان رہی، برہمنوں کی زبان رہی اور اعلیٰ ذات کے اہل علم نے اس میں مذہبی گرنتھ ہی نہیں بلکہ ادب کی بھی تخلیق کی۔ اس زبان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا عوام سے دور ہونا تھا بلکہ عام لوگوں کواس بات کی بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ کوئی اشلوک سن سکیں۔ سنسکرت کو مسلم عہد حکومت میں کچھ مسلمان علماء نے سیکھا اور مغلوں کے دور حکومت میں خاص طور پر اس کی ترقی ہوئی۔ آج کل عام تاثر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مغلوں کے دور میں سنسکرت زبان ہی نہیں بلکہ ہندووں کے ساتھ بھی بھید بھائو کیا گیا مگر یہ تاریخی جھوٹ ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک مؤرخ کا کہنا ہے کہ پرانی سنسکرت کتابیں اس بات کا انکشاف کرتی ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گہرے ثقافتی تعلق ہوا کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغلوں کے دور حکومت میں کوئی مذہبی یا ثقافتی تنازعہ نہیں تھا۔ مؤرخ آڈری ٹرشکے جن کی تحقیق کا میدان رہا ہے جنوبی ایشیا کا ثقافتی اور علمی ورثہ، اپنی کتاب ’’Culture Of Encounters Sanskrit At Mughal Court‘‘ میں اس سلسلے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کی اس کتاب کے مطابق 16 ویں سے 18 ویں صدی کے درمیان دونوں کمیونٹیز میں ایک دوسرے کے لئے بہت زیادہ ثقافتی احترام کا جذبہ پایا جاتا تھا۔ مذہبی یا ثقافتی جھگڑے نہیں تھے۔ اس کتاب کے بارے میں خود اسٹینفورڈ یونیورسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی تحقیق عام تصورات سے مختلف ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ مسلمان ہمیشہ ہندوستانی زبانوں، مذاہب اور ثقافت کے تئیں معاندانہ رویہ رکھتے رہے ہیں۔ مصنفہ کا خیال ہے کہ کمیونٹیز کے اشتراک والی تشریحات دراصل انگریزوں کے دور 1757 سے 1947 کے درمیان وجود میں آئیں۔ انگریزی دور حکومت کو 1940 کی دہائی میں ختم ہو گیا لیکن، دائیں بازو کے ہندوؤں نے ہندو، مسلمان کے درمیان تنازعات کو ہوا دینے میں سیاسی فائدہ دیکھا تو اسے اپنے فائدے کے لئے بڑھاوادیا۔ ٹرشکے کہتی ہیں کہ بھارت میں موجودہ مذہبی کشیدگی کی وجہ مغلوں کے بارے میں غلط نظریہ ہے۔ برصغیر کی تاریخ کا درست مطالعہ نہیں کیا جاتا۔ آج کی ’’مذہبی عدم برداشت‘‘ کو جائز ٹھہرانے کے لئے مغلوں کے دور کی ان مذہبی کشیدگیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے جو دراصل تھیں ہی نہیں۔ ٹرشکے کی تحقیق بتاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی خواہش بھارتی ثقافت یا ہندو مذہب پر غلبہ حاصل کرنے کی نہیں تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ابتدائی دور کے مسلمانوں کی دلچسپی روایتی بھارتی موضوعات کو جاننے میں تھی۔ یہ علمی موضوعات سنسکرت گرنتھوں میں موجود تھیں۔ اپنی اس تحقیق کے سلسلے میں کتاب کی مصنفہ نے کئی ماہ بھارت اورپاکستان میں گزارے اور قدیم مسودات کی تلاش میں کئی لائبریریوں اور دستاویزات کے مراکز پر گئیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں پایا کہ مغل امرائ، روساء اور شرفاء کے سنسکرت زبان کے علماء سے قریبی رابطے تھے۔ انھوں نے اپنی تحقیق میں پایا کہ لسانی اور مذہبی معاملات پر ہندو اور مسلمان دانشوروں میں خیالات کا تبادلہ ہوتا تھا۔ یہ بات درست نہیں کہ مغل، بھارتی علم و ادب کو ختم کرنا چاہتے تھے، سچ یہ ہے کہ مغلوں نے قدیم ہندوستانی علوم وفنون کی حفاظت کی اور انھیں کے سبب بہت سی کتابیں آج کے دور تک محفوظ ہیں۔ مغلوں کا علمی ذوقمغل حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں تعلیم کے فروغ کے لئے بہت کام کیا۔ ان حکمرانوں نے اپنی ریاست میں تعلیم اور ادب کے میدان میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت کی مسجدوں میں ’’مکتب‘‘ کا انتظام ہوتا تھا، جس میں لڑکے لڑکیاں ابتدائی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ بابر کے دور میں ایک ڈپارٹمنٹ خاص اسی کام کے لئے ہوتا تھا۔ یہ محکمہ اسکولوں، کالجوں کی تعمیر کرواتا تھا۔ مغل حکمراں ہمایوں جغرافیہ اور علم نجوم کا جاننے والا تھا۔ اس نے دہلی کے پرانے قلعے کی ’’شیر منزل‘‘ میں اپنی ذاتی لائبریری قائم کی تھی جس کی عمارت کا ایک حصہ آج بھی موجود ہے اوربدلے ہوئے نام ’’شیرمنڈل‘‘ سے جانا جاتا ہے۔ ہمایوں کو کتابوں میں بڑی دلچسپی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ ایک منتخب لائبریری لے کر چلتا تھا۔ ہمایوں کے شاہ ایران کے ساتھ بے حد قریبی تعلقات تھے اور ایران کے اہل علم بھارت میں پذیرائی کی امید میں آتے تھے۔ اس علمی اختلاط نے ہندی اور اردو جیسی زبانوں کو جنم دیا۔ ہمایوں کا بیٹا اکبر اگرچہ ناخواندہ تھا مگر اسے علمی ذوق تھا اور وہ کتابیں پڑھواکر سنتا تھا۔ اس نے بہت سی سنسکرت کتابوں کے فارسی میں ترجمے کرائے تھے اور انھیں حسین ورنگین تصویروں سے سجانے کا کام کرایا تھا۔ ان میں رامائن اور مہابھارت بھی شامل تھیں۔ مورخ بدایونی کے مطابق اکبر نے گجرات کو جیتنے کے بعد اپنی لائبریری کو کئی نایاب کتابوں سے بھر دیا تھا۔ اس نے ایک محکمہ، ترجمہ کے لئے قائم کیا تھا۔ اکبرکی لائبریری کی تعریف میں اسمتھ نے کہاہے کہ ’’اکبر کی لائبریری اس دور اور اس کے پہلے کے زمانے کی منفرد لائبریری تھی۔‘‘ اس کے علاوہ اکبر نے فتح پور سیکری، آگرہ اور دیگر کئی جگہوں پر کئی خانقاہیں، اور مدرسے تعمیر کرائے۔ اکبر کی رضاعی ماں ماہم انگہ نے دہلی میں ’’خیرالمنازل‘‘ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا تھا جس میں مسجد بھی تعمیر کرائی گئی تھی۔ یہ عمارت آج بھی پرانا قلعہ کے سامنے موجود ہے۔ فتح پور سیکری تعلیم کا بنیادی مرکزبن گیا تھا جہاں اکبر نے اپنے حکومت کی راجدھانی بنوائی تھی۔ یہاں اکبر کے دور میں عبدالقادربدایونی، فیضی، اورنظام الدین جیسے اہل علم رہتے تھے۔ اکبر کا دور حکومت ہندوستان میں فارسی ادب کی ترقی کا دور تھا مگر اسی کے ساتھ اس زمانے میں سنسکرت کے فروغ کے لئے بھی کام ہوا۔ ’’آئینِ اکبری‘‘ میں اکبر کے راج دربار کے 59 عظیم فارسی شاعروں کے نام ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ سنسکرت کے علماء بھی تھے اور بہت سے علماء فارسی وسنسکرت دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ اکبر اور جہانگیر کے زمانے میں ہی عبدالرحیم خان خاناں بھی تھا جو سنسکرت کا بڑا عالم تھا اور اہل علم کی سرپرستی کرتا تھا۔ وہ ہندی کے معروف شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علمی سرپرستی اور سنسکرت کا فروغاکبر کے جانشیں جہانگیر کو فارسی اور ترکی زبان کا اچھا علم تھا۔ اس نے اہل علم کی سرپرستی کی جن میں بہت سے سنسکرت کے علماء بھی شامل تھے۔ جہانگیر کی ماں ایک راجپوت تھی لہٰذا سنسکرت کا شوق اسے وراثت میں بھی ملا تھا۔ ایسا ہی معاملہ شاہجہاں کے ساتھ بھی رہا۔ اس کا نانہال بھی راجپوت تھا اور وہ ہندو علوم وفنون کی سرپرستی کرتا تھا۔ اس کی خاص توجہ عمارت سازی کی طرف رہی مگر باوجود اس کے، شاہجہاں نے سنسکرت کے علماء کی پذیرائی کی۔ شاہجہاں کا وزیراعظم چندربھان برہمنؔ سنسکرت کا زبردست عالم تھا اور مذہبی کتابوں کا علم بھی اسے حاصل تھا۔ برہمنؔ اردو زبان کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا اور فارسی کا پہلا صاحبِ دیوان ہندو شاعر تھا۔ برہمنؔ نے اپنی فارسی کتابوں میں سنسکرت کے مضامین پیش کئے ہیں۔ چونکہ برہمنؔ دارا شکوہ کا اتالیق تھا لہٰذا دارا شکوہ کے خیالات کو مذہبی جابنداری سے دور رکھنے کا کریڈٹ بھی اسی کو جاتا ہے۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ شہزادہ نے شریمدبھاگودگیتا، یوگ وششٹھ، اپنشد اور رامائن کا ترجمہ فارسی میں کروایا تھا۔ اس نے ’’سیرِاکبر‘‘ کے نام سے 52 اپنشدوں کا ترجمہ کرایا تھا۔ مغل دور میں شہزادیاں اور اعلیٰ گھرانوں کی لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم (بابر کی بیٹی) ، سلیمہ سلطان (ہمایوں کی بھتیجی) ، نورجہاں (جہانگیر کی بیوی) ممتاز محل (شاہجہاں کی بیوی) مشہور تھیں۔ ان خواتین نے بھی علمی خدمات انجام دیں اور سنسکرت کے علماء کی بھی اسی طرح سرپرستی کی جس طرح فارسی کے علماء کی کرتی تھیں۔ انھوں نے بہت سے مکتب اور مدرسے قائم کئے جہاں کے فارغین فارسی ہی نہیں سنسکرت سے بھی آگاہ ہوتے تھے۔ مغل دور میں تعلیم کے اہم مراکز مغل دور میں تعلیم کے اہم مرکز کے طور پر آگرہ، فتح پور سیکری، دہلی، گجرات، لاہور، سیالکوٹ، جونپور، اجمیر وغیرہ مشہور تھے۔ مغل دور کے حکمرانوں نے ’فارسی‘ کو اپنی سرکاری زبان قرار دے رکھا تھا مگر ان کے درباروں میں فارسی کے علاوہ سنسکرت کا بھی استعمال ہوتا تھا۔ مغلوں کے زمانے میں فارسی، عربی اور سنسکرت ہی نہیں بلکہ علاقائی زبانوں کو بھی فروغ ملا۔ کھڑی بولی، برج بھاشا، اودھی، بھوجپوری اور پوربی کو اسی زمانے میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا جو عوام کی زبانیں تھیں۔ اسی دور میں بنگال میں بنگالی زبان کو فروغ حاصل ہوا اور لٹریچر تخلیق پایا۔ اسی عہد میں کشمیری زبان نے ترقی پائی اور اس میں ادب کی تخلیق ہوئی۔ رامچرتمانس (تلسی داس) سورساگر (سورداس) اور پدماوت (ملک محمد جائسی) اسی زمانے کی تخلیق ہیں۔ بہت سی کتابیں حکومت کے تعاون کے بغیر بھی لکھی گئیں۔ سنسکرت ادبمغل دور میں سنسکرت کی جو کتابیں لکھی گئیں ان میں تھیں مہیش ٹھاکر کی ’’اکبر کالین اتہاس‘‘ پدم سندر کی تحریر کردہ ’’اکبر شاہی شرنگار درپن‘‘ ، جین آچاریہ سدھ چندر اپادھیائے کی ’’بھانچندرچرتر‘‘ دیو ویمل کی ’’ہیرا سبھاگیم‘‘ ۔ شاہ جہاں کے وقت میں گوندر آچاریہ سرسوتی اور جگناتھ پنڈت کو دربار میں پناہ ملا ہوا تھا۔ جگناتھ نے ’’رس-گنگا دھر‘‘ اور ’’گنگالہری‘‘ کی تخلیق کی تھی۔ پنڈت جگناتھ، شاہجہاں کے درباری شاعر تھے۔ ہندی کے مشہور شاعر راجہ بیربل، مان سنگھ، بھگوانداس وغیرہ اکبر کے دربار سے وابستہ تھے۔ تلسی داس اور سورداس مغل دور کے دو ایسے عالم تھے، جو اپنی تخلیقات سے ہندی ادب کی تاریخ میں امر ہو گئے۔ رس خان کو بھی ان کی ہندی کی تخلیقات کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔