مہہ و نجوم کی صورت سفر میں رہتے ہیں
مہہ و نجوم کی صورت سفر میں رہتے ہیں
کہ شب گزیدہ تلاش سحر میں رہتے ہیں
ہمارا عقل سے کچھ ربط ہی نہیں جیسے
جنوں اسیر ہیں دل کے اثر میں رہتے ہیں
نہ کوئی چھت ہے نہ دیوار ہے نہ دروازہ
یہ معجزہ ہے کہ ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
وفا طلب تو بہت ہیں وفا شعار نہیں
یہ کس جہاں میں ہیں ہم کس نگر میں رہتے ہیں
بچھڑ کے دونوں ہی آباد ہیں خدا شاہد
وہ اپنے گھر میں تو ہم اپنے گھر میں رہتے ہیں
انہیں سے تازگیٔ ذہن ہے نصیب مجھے
گلاب چہرے ہمیشہ نظر میں رہتے ہیں
جہاں سے ربط نہ کوئی تعلق اپنا خطیبؔ
ہم اہل عشق سدا خواب اثر میں رہتے ہیں