مگر غزل تو مری نہیں

دہلی کے ایک شاعر جوایک سرکاری افسر بھی تھے ، ایک بار الہ آباد تشریف لائے اور فراق صاحب سے فرمائش کی کہ وہ ان کے نئے مجموعۂ کلام پر کچھ لکھ دیں۔ فراق نے مروت میں چند رسمی کلمات لکھ دیئے ۔ مثلاً یہ کہ:
’’یہ شاعر ہیں...شعر کہتے ہیں.......دہلی میں رہتے ہیں ......سرکاری ملازم ہیں ......مجموعۂ کلام چھپوارہے ہیں ......وغیرہ۔‘‘
شاعر نے خوشی خوشی لے کر پڑھا مگر پڑھنے کے بعد کچھ تسلی نہیں ہوئی بولے:
’’فراق صاحب اس میں بس ایک جملہ اور بڑھا دیجئے ۔‘‘ انہوں نے قریب قریب گڑ گڑاتے ہوئے کہا کہ ’’....... نے اردو غزل کو نیا موڑ دیا ہے ۔‘‘
فراقؔ صاحب بولے :
’’مگر غزل مری تو نہیں ۔‘‘