مدرسے اور اسکول کی جنگ

دین کو سیکھنے کا درست ترین طریقہ تلقی بالدین ہے یعنی عالم کے روبرو بیٹھ کر دین کو سیکھا جائے ۔ یہ طریقہ سب سے نافع و مفید ہے اور اسی کی جھلک سلف میں ملتی ہے ۔

سلف میں باقاعدہ مدارس کا رواج نہ تھا لیکن جب شاگردوں کی تعداد بڑھنے لگی تو یہ باقاعدہ سے ایک الگ شعبہ بن گیا۔پرانے زمانوں میں کیوں کہ حکومتی سطح پر بھی اسلامی قاضیوں ، قانون دانوں ، وکلاء وغیرہ وغیرہ کی ضرورت ہوتی تھی اس لیے وقت کے بہترین دماغ ان اداروں سے رجوع کرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ پھر بیرونی غلبے کی وجہ سے یہ رحجان بدل گیا ۔ عملی زندگی میں ان لوگوں کا زیادہ عمل دخل نہ رہا تو  اب اتنے زیادہ بہترین دماغ ان کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے ٹیلنٹ بہت کم نمودار ہوتا ہے ۔

لیکن کچھ اعلیٰ دماغ جو کہ دین کا بنیادی رحجان رکھتے ہیں وہ زمانہ طالب علمی اپنے وقت  کو   باقاعدہ دینی علم کے حصول کے بجائے دوسرے دنیاوی علوم کے حصول میں بسر کر چکے ہوتے ہیں لیکن ذاتی رحجان کی وجہ سے وہ دین کو پڑھتے ہیں اور پھر اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں یا  دین کے لیے کوئی کام بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ سید مودودیؒ ہوں یا  امام حسن البنا   شہیدؒ،  سید قطبؒ شہیدؒ ہوں یا خرم مراد ؒ اور  ڈاکٹر اسرارؒ یا ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ،  یہ سب اسی کی مثالیں ہیں،  اور ان کو "واجدہ" کہا جاتا ہے ۔ لیکن ان پڑھے لکھے لوگوں میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس مقام کو پہنچ جائیں جہاں پر یہ تینوں اصحاب پہنچ گئے ۔ بقیہ لوگ جو ضمن میں کام کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ہو سکے تو علماء کی رہنمائی سے چلیں اور جن لوگوں کو دین کی طرف لائیں ان کا ربط علماء سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ علماء سے مراد ہرگز محض مدرساتی طبقہ نہیں ہے اور یہ بات بھی یاد رہے کہ مدرساتی طبقہ بالکل بانجھ بھی نہیں ہے ۔

یہاں یہ ایک بات دیکھی گئی ہے کہ یہ کالجز اور یونیورسٹیز سے پڑھے ہوئے نوجوان جب دین کی بات کرتے ہیں ، یا دین کی خدمت کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں تو کچھ مدرساتی تعلیم والے  سادہ لوح  حضرات  ان پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنا حریف اور  مخالف سمجھ لیتے ہیں ، یا روزی روٹی کے حصول میں ایک رکاوٹ ۔ واللہ اعلم  

بہر حال ، جو بھی وجہ ہو ، لیکن اس مخالفت یا مخاصمت کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کالجز اور یونیورسٹیز سے پڑھے ان نوجوانوں کو دین دار طبقہ سخت ترین شرعی و معاشرتی کسوٹیوں پر پرکھنا شروع کر دیتا ہے ، اور اگر کبھی کوئی خامی یا کمی نظر آئے تو تنقید کی بوچھاڑ چہار جانب سے ان کو آ لیتی ہے۔

حالانکہ ہمارا یہ  پڑھا لکھا طبقہ عموما ًدین کا ایک رضا کار ہے ۔یہ لوگ کوئی پروفیشنل نہیں ہیں ، بلکہ وہ مخلص ترین لوگ ہیں  جو  اپنے ذاتی جذبے سے تحریک پکڑ کر دین کا کام کررہے ہیں اور بہر حال ان  کو پورے اس ماحول میں ڈھالنا جو ایک خاص قسم کا دینی منظر نامہ پیش کرتا ہو نہ ممکن ہے ، اور  نہ مناسب ہی ہے ۔یہ فساق و فجار میں کام کررہے ہیں اور ان کو رعایت دینا بنتا ہے ۔ یہ پینٹ کوٹ پہنے ہوئے،  انگلش بولتے صاحبان،  دین کا پیغام عین ممکن ہے کہ اس طبقے تک پہنچا رہے ہوں،  جہاں تک بہت دین دار طبقے کی رسائی نہ ہو ۔ان کلبوں ، کالجوں ، میوزک کی محافل وغیرہ میں بھی انسان ہی بستے ہیں جن کو دین کا پیغام پہنچانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جس قدر کسی مسجد میں آنے والے شخص کو ۔

اگر کچھ ایسے اصولوں کا خیال رکھ لیا جائے تو امید ہے کہ ایک توازن پیدا ہوسکتا ہے اور  بے مقصد و بے وجہ  جھگڑے سے نجات مل سکتی ہے