ماضی کے مزار
اس زمین میں ماضی کے نہ جانے کتنے مزار پوشیدہ ہیں۔ قومیں جن کا ایک فرد بھی اب صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہے۔ زبانیں جن کا کوئی بولنے والا اب زندہ نہیں ہے۔ عقائد جن کا ایک پیرو بھی اب کہیں نظر نہیں آتا۔ پررونق شہر، عظیم معابد اور عالیشان محل جن کے نشان بھی اب باقی نہیں لیکن ماضی کبھی نہیں مرتا۔ وہ خاک میں ملتے ملتے بھی اپنے فکر و فن اورعلم و ہنر کا خزانہ حال کے حوالے کر جاتا ہے۔ حال جو مستقبل کا پہلا قدم ہے، اجداد کے اس اثاثے کی چھان پھٹک کرتا ہے۔ جو اشیاء مفید اور کارآمد ہوتی ہیں ان کو کام میں لاتا ہے۔ جو اقدار اور روایتیں صحت مند ہوتی ہیں ان کوقبول کر لیتا ہے۔ البتہ بیکار چیزوں کے انبار ضائع کر دیے جاتے ہیں اور فرسودہ اقدار و روایات کو رد کر دیا جاتا ہے، اور جب زندگی کا کارواں اگلی منزل کی طرف کوچ کرتا ہے تو اس کے سامانوں میں نئے تجربات اور تخلیقات کے علاوہ بہت سی پرانی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ قافلہ حیات کا یہ سفر ہزاروں سال سے یوں ہی جاری ہے۔ قومیں فنا ہو جاتی ہیں مگر نئی نسلوں کے طرز معاشرت پر، صنعت و حرفت پر، سوچ کے انداز پر اور ادب و فن کے کردار پر ان کا اثر باقی رہتا ہے۔ زبانیں مردہ ہو جاتی ہیں، لیکن ان کے الفاظ اور محاورے، علامات اور استعارات نئی زبانوں میں داخل ہو کر ان کا جز بن جاتے ہیں۔ پرانے عقائد کی خدائی ختم ہوجاتی ہے، لیکن نئے مذہب کی ہرآستین میں اورعمامہ ودستار کے ہرپیچ میں پرانے بت پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔ تہذیبیں مٹ جاتی ہیں لیکن ان کے نقش و نگار سے نئی تہذیب کے ایوان جگممگاتے رہتے ہیں۔ پانچ ہزار برس گزرے ایسی ہی ایک تہذیب دجلہ و فرات کی وادی میں ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے مشرق قریب میں پھیل گئی۔ بنی نوع انسان کی در اصل یہ پہلی منظم تہذیب تھی۔ اس تہذیب کا سکہ ڈھائی ہزار برس تک بحر روم سے بحرعرب تک چلتا رہا۔ تب فارس کے آتش کدوں میں مؤیدین زرتشت کے زمزمے بلند ہوئے اور ہخامنشی فرماں رواؤں نے بابل ونینوا کے ملبوں پر ایرانی تہذیب کی عمارتیں کھڑی کیں۔ دجلہ و فرات کا تہذیبی دھارا ایرانی تہذیب میں مل گیا اور دو آبے کا مذہب باقی نہ رہا، نہ زبان۔ لیکن وہاں کے باشندوں نے بنی نوع انسان کو پہلی بارعلوم و فنون سے روشناس کر کے دنیا پر جو احسان کیا ہے ہم اسے فراموش نہیں کر سکتے۔ دنیا کے سب سے پرانے گاؤں اسی دو آبے میں ملے ہیں۔ کاشتکاری نے سب سے پہلے وہیں رواج پایا تھا۔ کمہار کا چاک سب سے پہلے وہیں بنایا گیا۔ سب سے قدیم شہروں کے آثار وہیں برآمد ہوئے ہیں۔ شہری ریاستیں پہلے پہل اسی وادی میں قائم ہوئی تھیں اور قانون کا سب سے پہلا ضابطہ اسی سرزمین پر مرتب ہوا تھا مگر دجلہ وفرات کے قدیم باشندوں کا سب سے عظیم کارنامہ فن تحریر کی ایجاد ہے۔ سب سے پہلے مدرسے بھی دجلہ و فرات کے ساحلوں پر ہی کھولے گئے۔ سب سے پرانے کتب خانے بھی وہیں دستیاب ہوئے ہیں اور سب سے پرانی داستانیں بھی اسی خطے کی تصنیف ہیں۔ وادی دجلہ و فرات کا موجودہ نام عراق ہے۔ اس ملک کا رقبہ ایک لاکھ ستر ہزار مربع میل اور آبادی ستر لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس زمانے میں اس وادی کا کوئی نام نہ تھا۔ بلکہ پورا علاقہ تین حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ شمالی حصہ (موجودہ موصل کا علاقہ) جس میں انسانی آبادی کے سب سے قدیم آثار ملے ہیں، اشور کہلاتا تھا۔ وسطی علاقے کا نام جہاں اب بغداد آباد ہے، عکاد تھا اور بغداد سے جنوب کا ڈیلٹا سومیر کہلاتا تھا۔ اشور کا علاقہ دریائے دجلہ اور اس کے باجگذار دریاؤں، زاب کلاں اور زاب خورد کی کوہستانی وادی میں واقع ہے۔ اشور کے شمال مغرب میں کوہ توروس ہے جو عراق کو ترکی سے جدا کرتا ہے اور شمال مشرق میں کوہستان زگروس کا طویل سلسلہ ہے جو ایران اور عراق کے درمیان حد فاصل ہے۔ اس علاقے میں بارش کا سالانہ وسط ۱۲ تا ۲۵ انچ ہے۔ موسم گرمیوں میں خوش گوار اور سردیوں میں نہایت سرد ہوتا ہے۔ یہاں گندم، جو، میوہ دار درخت، انگور اورسبزیاں آسانی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس سومیر کا علاقہ جھیلوں، ندی نالوں اور دلدلوں سے بھرا ہے۔ موسم گرم اور مرطوب ہوتا ہے اس لئے کھجور اور ناریل کے درخت بہ کثرت ہوتے ہیں۔ عراق در اصل دجلہ وفرات کا عطیہ ہے۔ وہاں کے باشندوں کی زندگی کا انحصار انہیں دریاؤں پر ہے۔ اگر یہ دریا خشک ہو جائیں تو عراق ویران ریگستان ہو جائے۔ دریائے فرات شمال میں کوہ ارارات سے نکلتا ہے (یعنی وہی پہاڑ ہے جس پر روایت کے مطابق سیلاب کے بعد حضرت نوح کی کشتی جاکر ٹھہری تھی) اور ملک شام میں سے گزرتا ہوا شمال مشرق کی سمت سے عراق میں داخل ہوتاہے۔ اور میدان میں کئی سو میل کا سفر طے کر کے بالآٓخر خلیج فارس میں سمندر سے جا ملتا ہے۔ دریائے فرات کی لمبائی ۱۷۸۰میل ہے۔ دریائے دجلہ جس کی لمبائی ۱۱۵۰میل ہے، جھیل وان کے جنوب سے نکلتا ہے۔ اور راستے میں دریائے زاب کلاں، زاب خورد اور دریائے دیالہ کو اپنی آغوش میں لیتا ہوا بصرے سے ساٹھ میل شمال میں قرنا کے مقام پر دریائے فرات میں شامل ہو جاتا ہے۔ علماء ارض کا کہنا ہے کہ اب سے کئی ہزار برس پہلے خلیج فارس کا شمال ساحل قرنا کے قریب تھا اور دجلہ و فرات سمندرمیں الگ الگ گرتے تھے۔ اتفاقاً دو اور دریاؤں کے دہانے بھی وہیں واقع تھے۔ ایک دریائے قرون جو مشرق میں ایران سے آتا تھا اور دوسرا وادی الباطن کا نالہ جو جنوب مغرب میں عرب سے آتا تھا۔ یہ دونوں خلیج فارس میں تقریباً آمنے سامنے گرتے تھے۔ ان دریاؤں کی مٹی دہانوں کے پاس جمع ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ خلیج فارس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک رفتہ رفتہ مٹی کی ایک دیوار سی کھڑی ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دجلہ اور فرات کے بہاؤ کے ساتھ آنے والی مٹی کی نکاسی رک گئی اور یہ مٹی سمندر میں بہہ جانے کی بجائے دیوار کے شمال میں جمع ہوتی گئی۔ وہ پانی جودیوار کے سبب سمندر میں نہ جا سکتا تھا پہلے دلدل بنا پھر آہستہ آہستہ خشک ہوگیا۔ اس طرح وہ ڈیلٹا وجود میں آیا جہاں اب بصرہ آباد ہے۔ دجلہ اور فرات پہاڑوں سے نکل کر جب میدان میں آتے ہیں توان کو ایک پتھریلے پلیٹو سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ اونچی اونچی پہاڑیوں کو کاٹتے ہوئے بہت نشیب میں بہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ چھ ہزار برس میں بھی ان کے دھارے کارخ اس علاقے میں بہت کم بدلا ہے۔ چنانچہ اس علاقے میں پرانے شہر دریاؤں کے کناروں پر بدستور موجود ہیں مثلاً ماری (حریری) اور جربلوس دریائے فرات پر اور نینوا اور اشور (قلعۃ الشرغاط) دریائے دجلہ پر۔ اس کے برعکس وسطی اور جنوبی خطوں میں جہاں مسطح میدان ہیں دریاؤں کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب کے قدیم شہر سیپر (ابوجبہ) کیش (للاحمر) بابل، ایرک (درکا) ارء (مقیر) العبید اور اریدو (ابوشہرین) جو کسی زمانے میں دریائے فرات کے کنارے آباد تھے، اب دریا سے میلوں دور ہیں۔ ان شہروں کے انحطاط اور زوال کا بڑا سبب دریا کے بہاؤ کا یہی تغیر ہے۔ دریائے فرات جب ڈیلٹا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا بہاؤ بہت دھیما ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مٹی جسے دریا پلیٹو سے بہاکر لاتا ہے، تہہ میں بالخصوص کناروں پر جمتی جاتی ہے اور دریا کی سطح قرب و جوار کی زمین سے بھی اونچی ہوتی جاتی ہے اور کناروں پر مصنوعی بند سے بن جاتے ہیں۔ مثلا ًناصریہ کےقریب نشیب کا یہ عالم ہے کہ اُرکے کھنڈروں کے پاس سے گزرنے والی ریلوے لائن دریائے فرات کی تہہ سے بھی چھ فٹ نیچی ہے۔ اس سے یہ فائدہ توضرور ہواہے کہ فرات کا پانی بڑی آسانی سے آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن کنارے کے بندوں کی دیکھ بھال آسان نہیں ہے۔ سیم اور تھور کی تباہ کاریاں اس پر مستزاد ہیں۔ ان دریاؤں کی ایک خصوصیت ان کا اچانک اور ناوقت سیلاب ہے۔ یہ سیلاب اپریل اور جون کے درمیانی ہفتوں میں آتا ہے۔ جبکہ خریف کی فصلیں ابھی کھیتوں میں کھڑی ہوتی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے دریاؤں کا پانی آناً فانا ًکئی گز چڑھ جاتا ہے۔ طغیانی کے زور سے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں ایکڑ زمین، فصلیں، جھونپڑیاں اور مویشی پانی کی چادر میں چھپ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے قدیم باشندے سیلاب کے دیوتاؤں ’’ننگرسو اورتیامت‘‘ کوانسان کا دشمن خیال کرتے تھے۔ سیلاب نے ان لوگوں کے عقائد اور جذبات پرگہرے نقش چھوڑے ہیں مگر ان مسائل پر ہم آئندہ صفحات میں بحث کریں گے۔ وادی کے قدیم باشندےوادی دجلہ و فرات میں انسان کم وبیش سوا لاکھ برس سے آباد ہے۔ اس بات کا ثبوت علماء آثار کو پہلی بار بروابلکا کے مقام پر ملا۔ یہ جگہ دریائے زاب خورد کے جنوب میں کرکوک اور سلیمانیہ کے درمیان واقع ہے۔ اس جگہ کو ڈاکٹر ناجی الاصیل سابق ڈائرکٹر محکمہ آثار قدیمہ عراق نے ۴۹ء میں دریافت کیا تھا۔ ڈاکٹر ناجی کو بروابلکا میں پتھر کے بہت سے اوزار ملے جو ایک لاکھ بیس ہزار برس پرانے ہیں۔ اسی قسم کے اوزار سلیمانیہ سے بارہ میل جنوب میں ہزار مرد کے مقام پر ایک غار کی سب سے گہری سطح میں بھی پائے گئے ہیں۔ تیسری دریافت کوہ کرددشت کے ایک غار میں ہوئی ہے جو دریائے زاب کلاں کی وادی میں رواندوز کے قریب واقع ہے۔ کردی اب بھی سردیوں میں اس غار میں پناہ لیتے ہیں۔ وہاں آثار قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر سولیکی کو ۴۵ فٹ کی گہرائی پر آدمیوں کے چار ڈھانچوں کے علاوہ چولہے کے نشان، راکھ کے ڈھیر، پتھر کے اوزار اور بیل، بھیڑ، بکری اور کچھوے کی ہڈیاں بھی ملیں۔ ایک ڈھانچہ توچھ مہینے کے بچے کا تھا۔ ایک ڈھانچہ جس کی کھوپڑی بھی محفوظ تھی ۳۵ سال کے ایک آدمی کا تھا۔ اس آدمی کا قد ۵ فٹ ۳ انچ تھا۔ اس کی ہڈیاں موٹی تھیں اور جبڑا بھاری تھا مگر ٹھڈی ندارد تھی۔ اس کا ماتھا پیچھے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اور بھوں کی ہڈی ابھری ہوئی تھی۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ ا ٓدمی پیدائشی لنجاتھا۔ اورکچھ عرصے بعد اس کا یہ ہاتھ پتھر کے چاقو سے کاٹ دیا گیا تھا۔ (دور حاضر کے انسان کو جو لوہے کے چاقو کا عادی ہے پتھر کے چاقو پر حیرت ہوگی لیکن پتھرکا چاقوبھی بہت تیزہوتاہے۔ چنانچہ صدرپاکستان نے پچھلے سال موہن جو دڈرکے عجائب گھر کا افتتاح کرتے وقت ریشمی فیتے کو پتھرکے ایک پرانے چاقو ہی سے کاٹا تھا) یہ چاروں بدنصیب غارمیں بیٹھے تھے کہ اچانک چھت گر پڑی اور وہ دب کر مر گئے۔ یہ حادثہ لگ بھگ ۴۵۰۰ قبل مسیح میں پیش آیا تھا۔ انہیں کیا خبرتھی کہ ان کی اچانک موت سے علماء آثار ہزاروں سال پیشتر کی زندگی کا سراغ لگا لیں گے۔ زراعت کی ابتداءوادی دجلہ و فرات میں کھیتی باڑی کی ابتداء تقریباً سات ہزار سال قبل مسیح میں ہوئی۔ اس خطے میں حضری زندگی کے لئے جو کاشتکاری کی بنیادی شرط ہے، حالات نہایت سازگار تھے کیونکہ وہاں جو اور گیہوں کے جنگلی پودے آسانی سے مل جاتے تھے۔ شروع ہی میں تو خانہ بدوش جہاں کہیں یہ جنگلی پودے دیکھتے وہیں پڑاؤ ڈال دیتے تھے، اور جب خوراک ختم ہو جاتی تو کسی اور علاقے کی طرف روانہ ہو جاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ انہیں بیج بونا اور فصلیں اگانا بھی آگیا۔ علماء عمرانیات کا کہنا ہے کہ زراعت عورتوں کی ایجاد ہے اور مویشی پالنا بھی ہمیں عورتوں نے ہی سکھایا ہے۔ قیاس بھی یہی کہتا ہے کیونکہ ہوتا یہ تھا کہ مرد تو جنگلی جانوروں کا شکار کرنے چلے جاتے تھے اور عورتیں ڈیروں میں رہتی تھیں۔ ان کا کام بچوں کی دیکھ بھال کرنا، کھانا پکانا اور پوشاک تیارکرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کو آس پاس کے پودوں، درختوں اور بے ضررجانوروں کے مطالعے کا زیادہ موقع ملتا تھا۔ کیا عجب ہے کہ کبھی اتفاق سے جو یا گیہوں کے جنگلی بیج ڈیرے کے قریب ہی گر گئے ہوں اور بارش سے ان میں انکھوے پھوٹ رہے ہوں۔ بہرحال واقعہ کی نوعیت کچھ بھی ہو، یہ حقیقت ہے کہ زراعت کا فن عورتوں نے ایجاد کیا۔ اس ایجاد نے پورے قبیلے کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی اور خانہ بدوش لوگ مارے مارے پھرنے کے بجائے اپنے کھیتوں کے پاس مستقل بود و باش کرنے پرمجبور ہو گئے۔ اس طرح گاؤں کی بنیاد پڑی۔ ا ب تک عہد قدیم کے جتنے گاؤں دریافت ہوئے ہیں ان میں عراق کے گاؤں سب سے پرانے ہیں۔ عراق کا سب سے پہلا گاؤں کریم شہر کے پاس ملا ہے۔ یہ جگہ بھی کرکوک اور سلیمانیہ کے درمیان اور بروابلکا کے قریب ہی واقع ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ کریم شہر ابتدا میں در اصل نیم خانہ بدوشوں کی ایک بستی تھی۔ یہ لوگ اس وقت تک حضری زندگی کے پوری طرح خوگر نہیں ہوئے تھے۔ یہ بستی دو ایکڑ میں پھیلی ہوئی تھی اور پورے رقبہ پر پتھر کے روڑوں کا فرش بنایا گیا تھا۔ خانہ بدوشوں نے اپنی جھونپڑیاں غالبا ًاسی فرش پر بنائی تھیں۔ اس مقام پر پتھر کے ہنسئے، کدال اور چکیاں برآمد ہوئی ہیں۔ ارتقاء کی دوسری کڑی معلقات کا گاؤں ہے۔ یہ گاؤں موصل کے قریب اربیل جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں مکان گڑھے کھود کر بنائے گئے تھے۔ اس طرح کہ گڑھوں کوپتھر کی چٹانوں کو اوپر تلے رکھ کر گھیر دیا جاتا تھا۔ البتہ فرش یہاں بھی روڑوں ہی کے تھے۔ ارتقاء کی تیسری منزل جرمو کی بستی ہے۔ یہ جگہ بروابلکا اور کریم شہر کے درمیان واقع ہے۔ اس گاؤں میں مکان کی پندرہ تہیں برآمد ہوئی ہیں۔ جرمو کے باشندے چوکور گھروں میں رہتے تھے۔ ان کے گھروں میں ایک سے زائد کمرے ہوتے تھے، دیواریں مٹی کے گارے سے بنائی جاتی تھیں۔ گھرمیں کچی مٹی کے تنور اور پکی ہوئی مٹی کے تسلے ہوتے تھے، جو زمین میں گاڑ دیے جاتے تھے۔ جرمو کے باشندے ہڈی کے چمچوں سے کھانا کھاتے تھے۔ ہڈی کی سوئی سے سیتے تھے اور سن اور اون سے کپڑا بننا جانتے تھے۔ ان کے تکیے پتھر کے ہوتے تھے۔ وہ پتھر کے زراعتی اوزار استعمال کرتے تھے۔ خاص طورپر ہنسیا جس میں مٹھیالکڑی کے ہوتی تھی اور اسے رال سے جوڑ یا جاتا تھا۔ جومو کی کھدائی میں سل، بٹہ اور پتھر کے برتن بھی ملے ہیں اور جو اور گیہوں کے دانے بھی۔ پالتو جانوروں بالخصوص بھیڑ، بیل، سور اور کتے کی ہڈیاں بھی نکلی ہیں۔ یہ لوگ جسمانی آرائش و زیبائش کے ہنر سے بھی واقف تھے۔ چنانچہ پتھر اور مٹی کے ہار، سنگ مرمر کے دست بند اور کوڑی کے بندے بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ حاملہ عورت کی ایک مورت اورجانوروں کی بہت سی چھوٹی چھوٹی مورتیاں بھی نکلی ہیں۔ حاملہ عورت غالبا ًان کی دھرتی ماتا تھی اور اس کا حمل افزائش نسل کا علامت تھا۔ جانوروں کی مورتیوں سے غالباً ان کے بچے کھیلتے تھے۔ یہ لوگ اپنے مردوں کو گھر کے اندر ہی فرش کے نیچے دفن کر دیتے تھے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ جرموں کی بستی 6500 ق۔ م میں آباد تھی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ متذکرہ بالاتمام آثارعراق کے شمال مشرق خطے ہی میں (اشور) پائے گئے ہیں۔ جنوبی خطے یعنی ڈیلٹا میں ابتدائی عہد کی کوئی چیزاب تک نہیں ملی ہے۔ یہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیلٹا کی زمین شمالی خطوں سے عمر میں کم ہے اور وہاں انسان بہت بعد میں آباد ہوا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ مثلا ًاریدو (ابوشہرین) ڈیلٹا کی قدیم ترین بستیوں میں شمار ہوتا ہے لیکن وہاں پکی مٹی کے جو رنگین اور نقشی برتن ملے ہیں وہ جرمو کی بالائی تہوں کے برتنوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور انہیں کے ہم عصر ہیں۔ ڈیلٹا کو پہلے پہل در اصل شما لی باشندوں ہی نے آباد کیا تھا۔ انہیں جنوب کا رخ اس وجہ سے اختیار کرنا پڑا کہ ان کے علاقے میں کچھ اور قبیلے گھس آئے تھے۔ ان قبیلوں کا تعلق شامی نسل سے تھا۔ شمال سے آنے والے قبیلوں نے ڈیلٹا کے علاقے میں جوبستیاں بسائیں، ان میں اریدو سب سے پرانی بستی شمار ہوتی ہے۔ اریدو ابتدا میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو بڑھتے بڑھتے ڈیلٹا کا اہم شہر بن گیا۔ وہاں کھدائی میں اوپر تلے سترہ مندروں کے کھنڈر ملے ہیں۔ یہ مندرکچی اینٹوں سے بنے تھے اور ان میں فقط ایک کمرہ ہوتا تھا اوردروازے کے سامنے قربان گاہ بنادی جاتی تھی۔ میٹھے پانی کے دیوتا اِنکی کا مندر اسی شہر میں تھا۔ ڈیلٹا کے ارتقاء کا دوسرا دور العبید کہلاتا ہے۔ اس دور کے لوگ پکی مٹی کی مہریں، کلہاڑی اور ہلالی شکل کے ہنسیے بھی بناتے تھے۔ نرسل کی چٹائیاں بنتے تھے اور ان چٹائیوں پر مٹی کی لپائی کر کے مکان کھڑے کر لیتے تھے۔ اس قسم کا ایک مکان اریدو کی کھدائی میں ملا ہے اور بڑی اچھی حالت میں ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار برس گزر ے، اس خطے میں انسانوں کا ایک اور ریلا آیا۔ پروفیسر فرینک فرٹ اورجارجزرو کا خیال ہے کہ یہ نووارد ایلم (جنوب مغربی ایران) کی سمت سے آئے تھے۔ پروفیسر کریمر کی رائے ہے یہ لوگ نرے وحشی تھے اور انہو ں نے ڈیلٹا کے پرانے باشندوں کو اپنا محکوم بنا لیا تھا لیکن پروفیسر دولی اس بات کو نہیں مانتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ نووارد بھی مہذب لوگ تھے اور انہوں نے مقامی باشندوں کو غلام نہیں بنایا بلکہ انہیں میں گھل مل گئے۔ اس امتزاج سے سومیری قوم کی تشکیل ہوئی۔ اہل سومیر کے بارے میں اب تک یہ تصفیہ نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کس نسل کے لوگ ہیں۔ ان کے پرانے ڈھانچوں سے بس اتنا پتہ چلتا ہے کہ ان کے دانت لمبے تھے۔ جبڑے کی ہڈی موٹی اور ابھری ہوئی تھی۔ رنگ گندمی تھا اور سر کے بال سیاہ تھے۔ بعض محققوں کا قیاس ہے کہ یہ لوگ آرین تھے۔ لیکن ان کی زبان آریائی خاندان کی کسی زبان سے مشابہت نہیں رکھتی۔ بلکہ بیک وقت چینی، کوریائی، تامل، بنتو، ماجیار، (ہنگری) اور ترکی زبانوں سے ملتی جلتی ہے۔ سومیر کے خطے کو سومیری زبان میں کی این گی یعنی ’’جھاؤ کی زمین‘‘ کہتے تھے۔ یہ علاقہ بود و باش کے لئے سخت ناموزوں تھا کیونکہ وہاں کا موسم بہت گرم اور مرطوب تھا۔ زمین پر چھوٹی چھوٹی جھیلوں اور ندی نالوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ دلدل جھاؤ اور نرسل کی جھاڑیوں سے اٹے ہوئے تھے اور جھاڑیاں زہریلے جانوروں اور درندوں سے بھری تھیں۔ قرب و جوار کے ریگستانوں میں آندھیوں کے طوفان آتے تھے اور ریت کے بگولے اٹھتے رہتے تھے۔ جنوبی عراق کا جغرافیائی ماحول اور طرز معاشرت آج بھی تقریباً وہی ہے جو چھ ہزاربرس پیشتر تھا۔ چنانچہ سیٹن لائڈ SEATON LIOYD لکھتا ہے کہ، دریائے دجلہ اور عراق شط العرب کا سنگم بنانے سے پہلے ایک وسیع دلدلی علاقے میں پھیل کر گزرتے ہیں۔ یہاں نرسل کی جھاڑیاں اور پتلے پتلے نالے ہیں جن کے کنارے کھجور کے درخت کھڑے ہوئے ہیں۔ اس عجیب و غریب دنیا میں وہاں کے عرب باشندے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھے اپنی بھینسوں کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں، اور چاول کی فصلوں کے درمیانی وقفے میں مچھلیاں بھالے سے شکار کرتے اور مرغابیاں جال سے پکڑ کر شہروں میں فروخت کرتے ہیں۔ ان کا طرززندگی اورماحول اس علاقے کے قدیم ترین اورقبل ازتاریخ باشندوں سے بہت مشابہ ہے۔ ان کے شیوخ کے کلیسا نما مہمان خانے جو فقط نرسل اور گارے سے بنے ہوتے ہیں، اہل سومیر کے چھ ہزار برس پرانے معبدوں سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے سفرعراق کے دوران میں ایسے کئی مناظر دیکھے بلکہ نرسل کے بنے ہوئے ایک مہمان خانے میں عربوں کی روایتی مہمان نوازی سے لطف اندوز بھی ہوا۔ لیکن سومیری بڑے جفاکش، ذہین اور ہنرمند لوگ تھے۔ انہوں نے اپنے ماحول سے ہار نہیں مانی بلکہ اس کو اپنا مطیع بنا لیا۔ انہوں نے جنگلوں کو کاٹا، دلدلوں کو خشک کیا اور بستیاں آباد کیں اور کاشتکاری کرنے لگے۔ ڈیلٹا کی زمین بہت زر خیز تھی۔ گو بارش بہت کم ہوتی تھی لیکن یہ کمی دریائے فرات پوری کر دیتا تھا۔ چنانچہ دنیا کی پہلی نہر جس کا ذکر کسی نوشتہ میں آیا ہے سومیر ہی میں کھودی گئی تھی۔ یہ نہرعراق میں اب بھی موجود ہے اور اس کا نام الغرات ہے۔ اس نہر کو ریاست لگاش کے بادشاہ نے تقریبا پانچ ہزار برس گزرے، اس لئے کھدوایا تھا کہ دریائے فرات کے پانی پرامہ (جوخا) کی ہمسایہ ریاست سے آئے دن جو جھگڑا رہتا تھا وہ ختم ہو جائے۔ اہل سومیر کی خوراک کھجور اورجوکی روٹی تھی۔ ان کے ہلوں میں ایک نلکی لگی ہوتی تھی تاکہ جتائی اور بوائی ساتھ ساتھ ہوجائے۔ یونان کے مشہور مورخ ہیروڈٹس (۴۹۰ق م ۴۲۵) نے اس علاقے کی زرخیزی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں پیداوار بیج سے تین سوگنا زیادہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پیداوار آبادی کی ضرورت سے کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ اہل سومیر اپنی فاضل پیداوار کو قرب وجوار کے ملکوں کو برآمد کرتے تھے اور اس کے عوض تانبہ، چاندی، لکڑی اور دوسری چیزیں در آمد کرتے تھے۔ یہ لوگ گائے، بیل، بھیڑ اور بکریاں پالتے تھے۔ مچھلی کا شکار کرتے تھے اور گوشت کھاتے تھے۔ جو کی شراب بناتے تھے اور اسے مٹی کے حقہ نما برتن میں بھر کرنلکیوں سے پیتے تھے۔ کچی اینٹوں کے ایک منزلہ اور دومنزلہ گھروں میں رہتے تھے۔ ان گھروں کی ساخت وہی تھی جو گرم ملکوں میں عموماً گھروں کی ہوتی ہے۔ یعنی مکان کے وسط میں ایک صحن اور صحن کے چاروں طرف کمرے۔ سومیری قوم کا سب سے عظیم تاریخی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شہر بسائے، شہری ریاستیں قائم کیں اور تحریر کا فن ایجاد کیا۔ تحریر جو ہمارے تجربے، خیال اور واقعے کو بقائے دوام بخشی ہے۔ جو ابلاغ کا سب سے سہل، دیرپا اور معتبر ذریعہ ہے اور جو انسان کے ذہنی اور مادی تخلیقات کا سرمایہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھتی ہے۔ جس جگہ سب سے پہلے یہ فن ایجاد ہوا اس کا نام ایرک (درکاء) ہے۔ فن تحریر کی افادیت جب سومیر کے دوسرے شہروں پرآشکار ہوئی توانہوں نے بھی تحریرکے فن کو اپنا لیا اور رفتہ رفتہ یہ فن دجلہ و فرات کی پوری وادی میں رائج ہوگیا۔ وادی دجلہ و فرات کی تہذیب در حقیقت عبارت ہے سومیری تہذیب سے کیونکہ وادی کے باشندوں نے اہل سومیر سے فقط لکھنے پڑھنے کا فن ہی نہیں سیکھا بلکہ ان کے دوسرے ہنربھی اختیار کر لئے۔ ان کے رہن سہن اور نظم و نسق کے طریقوں کو اپنا لیا۔ اوران کے دیوی دیوتاؤں اور رسم و رواج کو قبول کر لیا۔ اہل سومیر کے تہذیبی اثر و نفوذ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی پرسومیر کا سیاسی اقتدار گو ہزار سال سے بھی کم عرصے تک قائم رہا، اور بابل و نینوا کی عظیم ہستیوں نے سومیر کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا لیکن سومیری تہذیب کا سکہ بدستور چلتا رہا۔ چنانچہ عکادی اور اشوری ریاستوں کے قانون قاعدے اور معیشت و معاشرت کے طور طریقے بدستور وہی رہے جو سومیریوں نے وضع کئے تھے۔