معروف کتاب ،فریضہ اقامت دین سے ایک اقتباس
اگر کسی جماعت کے اندر اپنے اصولوں کا یقین مرجھا گیا اور اپنے مقصد و نصب العین کا عشق بے جان ہو گیا ہو تو یہ اس کے مٹ جانے کی ناقابلِ انکار علامت ہے۔
اس کم یقینی اور سردمہری کے نتیجے میں اگر اس کے اندر کسی دوسرے نظام کے ساتھ تعاون اور مداہنت کا رجحان ابھر آئے تو اس پر ہرگز کوئی تعجب نہ کرنا چاہیےاور کسی ایسے رجحان کا ابھر آنا اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ حیاتِ ملی کے محافظوں نے خزانے کی کنجیاں دشمنوں کے حوالے کر دیں۔اور اب اس پونجی کا لٹ جانا بس کوئی دن کی بات ہے جسے کوئی معجزہ ہی روک سکتا ہوتو روک سکے۔
پھر چونکہ زوال ہو یا کمال، اس دنیا میں کسی کی فطرت میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔اس لیے اس کے یقین و عشق میں اس زوال کا عمل اپنی رفتار سے برابر آگے بڑھتا جاتا ہے۔اور آخر کار ایک مقام پر پہنچ کر وہ اس لٹی ہوئی پونجی کے لٹ جانے کے احساس کوبھی لوٹ لیتا ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہےجب افرادِ جماعت میں کسی دوسرے اصول و نظامِ زندگی کی غلامی کا ذوق پیدا ہو جاتا ہے۔جب وہ معاون اور مداہنت کی بھی حدیں پھاندچکےہوتے ہیں۔جب انھیں اپنا اصولی اور اخلاقی موقف ہی نہیں یادرہ جاتا۔ جب وہ اپنے مقصد اور اصول سے اتنے بیگانہ ہوجاتے ہیں۔کہ ان کا عملی رویہ تو ان چیزوں کے غلط اور ناقابل قبول ہونےکی گواہی دینے ہی لگتاہے،ان کو نظری طور پر بھی یہ گوارا نہیں رہ جاتاکہ معاشرے اور مملکت کی باگ ڈور پھر سے ان اصولوں کے ہاتھ میں دے دیے جانے کی کوئی جدوجہد کی جائے۔
اور اگر کسی گوشے سے اس طرح کی پکار بلند ہو جاتی ہےتو وہ حیرت کے کانوں سے سنتے اور اختلاف و عناد کی زبانوں سے اس کا جواب دیتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر جماعت بحیثیت ایک اصولی جماعت ہونے کے فنا ہو جاتی ہے اور اس کے نالائق فرزند اپنے ہی ہاتھوں اسے قبر کی گہرائیوں میں سلا دیتے ہیں۔
ان دونوں موخرالذکر صورتوں میں یہ ضروری نہیں ہےکہ جماعت مادی حیثیت سے بھی بے نام و نمود ہو جائے اور دنیا کی دولت اور سیاست میں اس کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہ جائے۔اس کے برعکس یہ عین ممکن ہے کہ عام مادی تدبیروں پر عمل کرکے وہ اقوام عالم کی صفوں میں ایک نمایاں اور عظیم الشان پوزیشن کی مالک ہو جائے۔اس کے پاس حکومت کا کروفرہو، دولت و شوکت ہو،قومی اقتدار اور بین اقوامی وقار ہو۔ لیکن اپنی ان تمام شوکت اور عظمتوں کے باوجود اس مقصد اور ان اصولوں کے نقطہ نظر سے،جن پر اس جماعت کی بنیاد قائم تھی اس کا وجود و عدم برابر ہوگا۔
جن اصولوں کی لاش ان کے پیروں تلے روندی جارہی ہو ان کو اس سے کیا بحث کہ وہ ذلت کی خاک پر ہے یاعظمت کےآسمان پر۔ان کو اگر بحث ہے تو صرف اس بات سے کہ زندگی کے میدان میں ہمیں غالب و کار فرما بنانے کی اس کے افراد کے دلوں میں کتنی لگن ہے؟ اور وہ اس کے لیے اپنی جان، اپنے مال، اپنے ذرائع اور اپنی قوتوں کی کتنی قربانیاں دے رہے ہیں؟ لیکن اگر یہ کچھ نہیں ہے تو اپنی زبان حال سے یہ اصول ان سے اپنی بے تعلقی کا اعلان کر دیں گے۔اور پھر انصاف و دیانت کا کھلا تقاضا ہو گا کہ یہ لوگ بھی اپنی طرف سے اس اعلان کے برحق ہونے کی تصدیق کر دیں، اب ان کے لیے یہ کسی طرح بھی جائز نہیں رہ جاتا کہ وہ ان اصولوں کانام بدستور اب بھی لیتے جائیں اور اپنے آپ کو اس جماعتی لقب سے موسوم کرتے رہیں جو کبھی ان اصولوں کی صحیح نمایندگی کے سبب ہی انھیں ملا تھا۔ کیونکہ اب وہ ان کے نمائندے باقی نہیں رہے۔