معنی اور تناظر
فن کا طرہ امتیاز ہے۔۔۔ قوس! اور غیر فن کا۔۔۔ لکیر! اور قوس اور لکیر کا یہی فرق شعر کو نثر سے جدا بھی کرتا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ہر شعر واقعی شعر ہوتا ہے اورکیا ہر نثرپارہ فن کے دائرے میں لازمی طورپر خارج متصور ہوسکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ شعر یا نثر پارہ یہ اسی حدتک فن کا مظہر قرار پائے گا جس حد تک اس میں فن کی روح یعنی قوس کا انداز شامل ہوگا۔
لکیرکی جہت مستقیم ہے لہٰذا کچھ پتہ نہیں کہ یہ کس منزل تک لے جائے گی۔ لے بھی جائے گی کہ نہیں۔ لیکن قوس میں خم ہے، موڑ ہے، اپنے ازل کی طرف لوٹنے کا انداز ہے۔ اس کی منزل خوداس کے اندر موجود ہے کیونکہ یہ ہمہ وقت اپنی ہی جانب لوٹ رہی ہوتی ہے۔
فن اپنی طرف لوٹنے کا ایک وظیفہ ہے۔ اندرکے ان دیکھے جہان کو صورت پذیر کرنے کی ایک کاوش ہے۔ ’’ان دیکھا‘‘ اس لیے کہ مرئی شے ہی کودیکھا جاسکتا ہے۔ جب ’’شے‘‘ غیرمرئی ہو، ایک بے خدوخال احساس یا تجربے کی صورت میں ہو تواس کوحسیات کی مدد سے نشان زد کرنا کیسے ممکن ہے؟ اس سب کے باوجود فن اس چھوئی موئی کو صورت پذیر کرنے کی ایک دلکش کاوش ہے۔ اس عمل میں وہ جس حد تک کامیاب ہو، اتنا ہی اعلیٰ متصور ہوتا ہے۔
اندرکے بے خدوخال احساس کا ذکر کرکے میں داخل اور خارج کو ایک دوسرے کا حریف بناکر پیش نہیں کر رہا یعنی غائب کو ظاہر سے جدا نہیں کر رہا۔ خارج بھی دراصل داخل ہی کا ایک رنگ ہے بلکہ خارج بجائے خود وہ داخل ہے جو صورت پذیر ہوچکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ظاہر، غائب کی ضد نہیں بلکہ غائب کی توسیع اور تجسیم ہے۔ دوسری طرف انسان کوسزا یہ ملی کہ اسے قوس سے محروم کرکے لکیر کے سپرد کردیاگیا۔ چنانچہ اس کا مقدر ایک معنی کا مطیع ہونا قرار پایا مگر انسان نے اس پابندی کو قبول کرنے کے دوران بھی گاہے ماہے اس سے آزاد ہونے کی کوشش کی۔ اس کی یہ کوشش قوس کی صورت میں ظاہر اور فن کی صورت میں مجسم ہوئی۔ اگروہ سیدھی لکیر کی گرفت سے آزادہوکر قوس کا انداز اختیار نہ کرتا تو کبھی کائنات کے تخلیقی عمل کے علی الرغم ایک ثانوی تخلیقی عمل کا مظاہرہ نہ کرپاتا اوراسی لیے کبھی فن کے مدار میں داخل نہ ہوسکتا۔
کائنات کے کینوس پر بھی قوسیں ہی قوسیں نظرآتی ہیں۔ ہرکہکشاں اپنے محور پر گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ یعنی ایک ایسے مرکزے کے گرد جو ایک بے نشان بلیک ہول ہے۔ اس کے علاوہ وہ کہکشاؤں کے کسی ایک کنبے میں شامل ہوکر کسی اور مرکزے کے گرد گھومتی ہوئی بھی نظرآتی ہے۔ اوریہ مرکزہ کہکشاؤں کی معیت میں کسی اور مرکزے کے گرد طواف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ساری کائنات ایک کبھی نہ ختم ہونے والا طواف ہے جو کسی بے پایاں ان دیکھے مرکز ے کے گرد ہورہا ہے۔
کائنات کا سفر باہر کی طرف یقیناً ہے مگریہ سفر بھی سیدھی لکیر کے بجائے قوسوں یا Spiralsکی صورت میں ہے۔ اپنے نظام شمسی پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں تمام سیارے سورج کے گرد طواف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چکر سالگاکر سورج کے قریب توآتے ہیں مگراس کے روشن ہالے کو چھوکر لوٹ بھی جاتے ہیں۔ اگر وہ کبھی اس ہالے کو توڑ کر اندر آجائیں تو سورج کی تمازت میں جل کر راکھ ہوجائیں۔ صوفی راکھ ہوجانے کے اس عمل کا والہ وشیدا ہے اوراسی لیے اسے پروانے کی تمثیل بہت عزیز ہے۔ مگر فن کار طواف کا دلدادہ ہے۔ چھوکر اور یوں خودکومنور کرکے لوٹ جانے کا متمنی ہے تاکہ بار بار آسکے۔ اسے وصال سے زیادہ Love Play عزیز ہے۔ مگر ان دونوں میں ایک اور فرق بھی ہے۔ صوفی قطرے کی صورت دجلے میں جذب ہونے ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے مگر فن کار تلمیذ الرحمن ہے۔ وہ کائنات کے تخلیقی عمل کے متوازی خود بھی ایک تخلیقی عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور جو کچھ اسے قریب آنے پر ’’دکھتا‘‘ اور محسوس ہوتا ہے، اسے صورتوں اور تمثیلوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ بالکل جس طرح آفاقی سطح پر ’’وجود‘‘ نے اپنے عظیم تخلیقی عمل کے ذریعے ’’موجود‘‘ کی حامل ایک بوقلمونی کائنات کو صورتوں، شبیہوں اور استعاروں میں ڈھال کر پیش کردیا تھا۔
فن کے کینوس پر نمودار ہونے والی ہر صورت اور شبیہ ایک دستخط ہے۔ یہ دستخط باطن کا علامتی اظہار ہے مگر عام دستخط کی طرح اس کا معنی متعین نہیں ہے۔ عام کاروباری دستخط اصلاً ایک ایسا نشان ہے جس کا صرف ایک معنی ہے۔ اگر وہ اس معنی سے دستبردار ہوکر کثیرالمعنویت کا مظاہرہ کرنے لگے تواس کی کاروباری حیثیت صفر ہوکر رہ جائے۔ کاروباری دستخط کی سچائی اس کی شفافی Transparency میں ہے۔ اس کے عقب میں اس ہستی کا چہرہ صاف نظرآنا چاہئے، جس کا یہ دستخط ہے۔ لیکن اگر عقب میں موجود ہستی بے چہرہ ہو توپھر عام کاروباری دستخط یعنی مسودہ یا چیک پر نمودار ہونے والا دستخط اس کی نمائندگی کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے۔ مگر ادب کے مدار میں داخل ہوتے ہی دستخط منقلب ہوجاتا ہے۔ بظاہر تو وہ تصنیف پر مصنف کی ملکیت کوظاہر کرتا ہے مگر بباطن مصنف کے اسلوب اظہار بلکہ اسلوب ذات کا اعلامیہ بن جاتا ہے۔ یعنی اپنے یک معنوی وجود کو وسیع کرکے اسے علامتی مفہوم عطا کردیتا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر تصنیف بجائے خوداس کے مصنف کا دستخط ہے۔
اب اس دستخط کے عقب میں جوہستی استادہ ہے وہ محض مصنف کی ہیکل نہیں بلکہ اس کا وہ غیرشخصی وجود بھی ہے جو متعدد کوڈز (Codes) اور کنوینشنز(Conventionsکا آمیزہ ہے، جس میں لاتعداد ثقافتی ابعاد باہم آمیز ہوگئے ہیں۔ انسان کی یادداشت اوراس کے خواب، اس کی اجتماعی آرزوئیں اوراس کے آر کی ٹائپل امیجز یعنی اس کا سارا ثقافتی نسلی سرمایہ اس دستخط کے اندر سما گیا ہے بلکہ اس میں وہ سب کچھ بھی موجود ہے جس تک انسان کی رسائی کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا پراسرار براعظم ہے جس کے ساحلوں پر کئی کولمبس اور واسکوڈے گاما مبہوت کھڑے اس کے اندر کی دنیا میں اترنے کاسوچ رہے ہیں۔
لہٰذا ایک بات تویہ ہے کہ مصنف نہ صرف دوسروں کے روندے ہوئے راستوں پر سفر نہیں کرتا بلکہ وہ بعض اوقات ایسے منطقوں میں بھی چلا جاتا ہے جنہیں پہلے کسی انسان کے قدموں نے چھوا تک نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مصنف اگلوں کے لکھے ہوئے میں اضافہ ضرور کرتا ہے مگراس معاملے میں بھی وہ اینٹوں کی زیرتعمیر دیوار پر اپنے حصے کی اینٹ نہیں رکھتا بلکہ ’’اصل‘‘ اور ’’اضافہ‘‘ دونوں کو باہم آمیز کرکے ان کو تقلیب یا Metamorphosis سے گزارتا ہے۔ وہ پوری دیوار کو پہلے منہدم کرتا ہے اورپھر اس کے سارے کچے مواد یعنی Raw Material سے (جو نراج کی ایک صورت ہے) ازسرنو دیوار کو اسارتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تواس کی حیثیت محض ایک معمار کی ہوگی، فن کار کی ہرگز نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تقلیب کے بغیر نیافن پارہ وجود میں آہی نہیں سکتا اور یہ تقلیب صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ مصنف اپنی ذات میں موجود زبان کی ’’یونیورسل گرائمر‘‘ کے علاوہ ثقافتی مواد نیز اس نسلی مواد تک بھی رسائی حاصل کرے جو بنی نوع انسان کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ایک عظیم فن کار اس سے بھی پیچھے اس منطقے تک پہنچتا ہے جو اپنی جگہ بے خدوخال جہان ہے۔ جس طرح تصنیف میں پارول کا تنوع تودکھائی دیتا ہے لیکن وہ لانگ (Langue) نظرنہیں آتی جو اس کی بنت کاری کی محرک ہے، اسی طرح مصنف کو بھی وہ ساخت دکھائی نہیں دیتی جو اس کی تخلیق کاری کی محرک ہے۔ تاہم وہ اسے وہبی طورپر محسوس ضرور کرتا ہے۔ مصنف کے لیے لازم ہے کہ وہ نہ صرف شعریات یا Poetics کی حامل اس ساخت کو اس کے وسیع ترین ابعاد کے ساتھ قبول کرے اور محض اس سے اکتساب تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے اندرجذب ہوکر اسے اپنی واردات بھی بنائے۔ صرف اسی صورت میں وہ صحیح معنوں میں تخلیق کرسکے گا۔
جو لوگ تصنیف سے اس کے مصنف کو منہا کرتے ہیں اور تمام تر اہمیت تصنیف یا قاری کو دیتے ہیں وہ تصویر کا صرف ایک رخ ہی دیکھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مصنف اپنی تصنیف میں اسی طورپر موجود ہوتا ہے جیسے گرائمر بطور ایک سسٹم جملوں کے اندرکارفرما ہوتی ہے۔ یہ مصنف محض گوشت پوست کی ایک ہستی نہیں جس کا ایک نام اورپیشہ بھی ہے بلکہ وہ بہت سی سطحوں کا حامل ایک Construct ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ مصنف تصنیف کی بنت میں شامل ہے تواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی شخصی حیثیت کے علاوہ اپنی لسانی اورآفاقی حیثیت میں بھی شامل ہے اوراسی لیے تصنیف محض ایک معنی تک محدود نہیں بلکہ کثیرمعنیاتی ہے۔
مصنف کی شخصی زندگی کی چھوٹ پڑنے سے تصنیف کا جو معنی مرتب ہوتا ہے وہ بالعموم اکہرا اور سپاٹ ہوتا ہے اور بعض اوقات جب مصنف کسی خاص آئیڈیالوجی، نظریے یا مسلک کے تابع ہو تو یہ معنی متن پر اسی طرح منطبق ہوکر ’’نشان‘‘ بن جاتا ہے جیسے ’’نام‘‘ شخص پر منطبق ہوکر محض ایک معنی کا حامل قرار پاتا ہے۔ مگر مصنف کی ذات کے اندرمتعدد سطحوں کا ایک پردہ درپردہ عالم بھی ہوتا ہے لہٰذا وہ اپنی تصنیف میں محض بالائی سطح کے معنی تک محدود نہیں بلکہ داخلی سطحوں سے ہوکر تصنیف کو بھی کثیرالمعنیاتی بنا ڈالتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سامنے کے معنی کے اندر سے پھوٹنے والا ثانوی معنی پہلے معنی کو مٹا دیتا ہے۔ ہوتا فقط یہ ہے کہ تناظر یا Context کی تبدیلی سے معنی میں وسعت آجاتی ہے۔ دریدا سے یہ بات منسوب ہے کہ،
Meaning is context bound but context is boundless
مراد یہ ہے کہ تناظر کے بغیرکوئی معنی مرتب نہیں ہوسکتا مگر کوئی تناظر حدود میں مقید نہیں ہوتا۔ اس کے اندر سے کوئی نہ کوئی چوتھا کھونٹ ضرور جھلکتا ہے جوایک نئے تناظر کو وجود میں لاکر معنی میں توسیع کردیتا ہے۔ طبیعات کے سلسلے میں دیکھئے کہ انیسویں صدی کے آخر تک نیوٹن کا کشش ثقل کا تصور ہر شے پر محیط تھا مگر بیسویں صدی میں جب ذرے کے اندر جھانکا گیا تو وہاں کشش ثقل کی قوت کے بجائے نیوکلیر قوت دکھائی دی۔ آج صورت یہ ہے کہ کائنات اکبر یعنی Macrocosmمیں نیوٹن کی کائنات کا تصور درست ہے۔ جبکہ کائنات اصغر (Microcosm) میں کوانٹم طبیعات کا!
کچھ یہی صورت تناظر کی تبدیلی سے معنی کی کائنات میں بھی درآتی ہے۔ مصنف کی شخصی حیثیت کے تناظر میں جومعنی مرتب ہوتا ہے وہ اس Contextمیں تو درست ہے مگر مصنف کی انسانی حیثیت کے تناظر میں یہ معنی تبدیل ہوجائے گا اور تناظر کے دیگر دائروں میں متواتر تبدیل ہوتا جائے گا مگراس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ کسی ایک تناظر کے اندر جو معنی پیداہوا تھا وہ مسترد ہوجائے گا کیونکہ اپنے تناظر کے اندر اس کا وجود بدستور رہے گا۔ لہٰذا اس بات کا تمام تر دارومدار قاری پر ہے کہ وہ خود کو کسی ایک تناظر تک محدود کرکے ایک خاص معنی تک رسائی پاتا ہے یا اس تناظر کو عبور کرکے معنی کے نئے سلسلوں سے متعارف ہوتا ہے۔
معنی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، تناظر سے مشروط ہے۔ اگرتناظر تبدیل ہوگا تو لامحالہ معنی میں بھی کشادگی درآئے گی۔ دیکھا جائے تو معنی آفرینی کا یہ عمل بیک وقت تصنیف کا بھی امتحان ہے اورقاری کا بھی! تصنیف کا اس اعتبار سے کہ کیا اس کا تناظر اکہرا اور معنی متعین ہے یا اس تناظر کے اندر وہ شگاف یا Rupture موجود ہے جو تصنیف کے دیگر ابعاد تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے؟ ایک اعلیٰ تصنیف شگاف در شگاف اوراس لیے تناظر در تناظر ہوتی ہے۔ چنانچہ اس میں کوئی اکلوتا معنی نہیں ہوتا بلکہ معانی کے سلسلے موجود ہوتے ہیں۔ ہر معنی نے ایک نسبتاً گہرے معنی کودبایا ہوتا ہے۔ جب تناظر تبدیل ہوتا ہے توگویا متعین معنی کا بوجھ ہٹتا ہے اوراس کے نیچے سے ایک اور معنی نمودار ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف معنی آفرینی کا یہ عمل قاری کے لیے بھی ایک امتحان ہے کیونکہ اگر قاری کے ہاں شگاف تلاش کرنے اورپھر اس میں سے گزر کر دوسرے تناظر میں چلے جانے کی تخلیقی صلاحیت نہیں ہے توپھر وہ ایک معنی تک ہی محدود رہے گا اورتصنیف کے اکہرے پن سے مطمئن نظرآئے گا لیکن اگروہ تخلیقی طورپر فعال اورمتجسس ہوگا توپھر اسے ایک کثیرالمعنیاتی فضا میں قدم بہ قدم بہت دور تک جانے کا موقع ملے گا اور وہ تصنیف کی کائنات کے اندر سرگرم ہوسکے گا۔
مصنف جب تخلیق کاری میں مبتلا ہوتا ہے توتصنیف کے کچے مواد کو، جوباہر کی دنیا میں قاش قاش بکھرا پڑا ہے، سمیٹ کر ایک نقطہ پرمرتکز پھر ’منقلب‘ کرتا ہے۔ نقطہ جو اس کی ’’خواہش‘‘ کا مرکز ثقل ہے۔ حقیقتاً ’’خواہش‘‘ بجائے خود ایک کائنات ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ بدھ مت والوں نے اسے سنیاتا کہا تھا جس کا مطلب تھا ’’اندر سے خالی‘‘ اور چینیوں نے اسے تاؤ Taoکہا تھا جس کا مطلب بھی ’’اندر سے خالی‘‘ تھا مگراندر سے خالی کا مفہوم ’’خلا‘‘ نہیں تھا۔ اس سے مراد یہ تھی کہ اندر کا خالی پن ایک ایسی زبردست قوت کے طورپر موجود ہے جو Spasmodic Contractionsکے عمل میں مبتلا ہوکر ’’باہر‘‘ کو جرعہ جرعہ اپنے اندر اتا ر رہا ہے۔
مصنف جب تخلیق کاری میں مبتلا ہوتا ہے تواس کے اندر کی خواہش جو تہہ در تہہ خالی پن ہے، باہر کے مواد کو اپنی طرف لگاتار کھینچتی ہے۔ تصنیف کے تناظر کے اندر ایک اور تناظر کا نمودار ہونا خواہش کی اس کشش ہی کے باعث ہے۔ چونکہ خواہش جسم کے تقاضوں تک پھیلی ہوتی ہے لہٰذا اس کی کارکردگی سے جو تناظر ابھرتے ہیں وہ بھی معنی کے کئی سلسلوں کو جنبش میں لاتے ہیں۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اگر خواہش شعوری اور جسمانی ہے تو اس سے پیدا ہونے والا تناظر اور اس کا معنی بھی اکہرا ہوگا اور اگر خواہش لاشعوری ہے تو پھر اس سے نمودار ہونے والے منظر ناموں اورمعانی کے سلسلوں کی بھی کوئی حد نہیں ہوگی۔