مائل ہوا جفا پہ وہ ترک وفا کے بعد

مائل ہوا جفا پہ وہ ترک وفا کے بعد
باد سموم آئی ہے موج صبا کے بعد


دیکھا جسے بغور وہی سر کشیدہ تھا
جیسے کہ مشت خاک ہو سب کچھ خدا کے بعد


چاہا یہ تھا کچھ اور بھی حاصل ہو قرب یار
وہ اور کھنچ گیا یہ اثر تھا دعا کے بعد


اب تو مریض عشق سے مایوس ہے طبیب
درماں ہے موت ہی مرض لا دوا کے بعد


صرف اس خیال سے کہیں تجھ پر نہ آئے حرف
کھولے نہ لب ترے ستم ناروا کے بعد


آب و ہوائے خلد بھی شاید نہ راس آئے
اے سوزؔ اس کے شہر کی آب و ہوا کے بعد