ماہ منیر

خلاؤں کے اندھے مسافر سے پوچھیں
وہ اک ذرۂ خاک سے ٹوٹ کر دور لا انتہا وسعتوں اور
بے سمت راہوں کی پر ہول خاموشیوں میں
بھٹکتا پھرا تھا
ہواؤں کے رہوار پر برق رفتار صدیاں گزرتی رہیں
اس کی راہوں میں پل بھر کو آہٹ نہ آئی
زمیں آتشیں گویا چوگاں خلا میں لڑھکتی ہوئی
یوں ہی بے مدعا رقص کرتی ہوئی
بطن خورشید سے آگ کے سرخ دھبے کی صورت نکل کر
خلا کے اندھیرے سمندر میں ڈوبی
پھر آہستہ آہستہ تاریک ہونے لگی تھی کہ اندھا مسافر
اچھل کر کسی سمت بے نام کو چل دیا تھا
پھر اب تک الگ ان کے محور الگ ان کی راہیں
زمیں بھی اندھیری
مسافر بھی بے نور


لیکن اسے کیا پتا تھا کہ اک دن زمیں
ساری گہرائیاں پاٹ کر آ ملے گی


تو افلاک کے اندھے رہ رو سے پوچھیں
کہ یہ لمحۂ وصل کہہ
تجھ کو کیسا لگا ہے