مادر فطرت

اپنی آغوش میں لے مادر فطرت مجھ کو
ہے ترے سایۂ داماں کی ضرورت مجھ کو


میرے جذبات ہیں مجروح مرا دل ہے فگار
غم دوراں کی تپش پھونک رہی ہے دل زار


میری ماں آج تو سینے سے لگا لے مجھ کو
اپنے آنچل میں ذرا دیر چھپا لے مجھ کو


زندگی کیا مجھے دے بے سر و ساماں خود ہے
چارہ گر کیا ہو مری لائق درماں خود ہے


اس نے جو کچھ بھی دیا اس کا بڑا احساں ہے
دل مگر تو نے جو بخشا ہے بڑا ناداں ہے


دل کو کیوں شیشے کی مانند بنایا تو نے
کیوں نہ پھر سنگ حوادث سے بچایا تو نے


ذوق پرواز تو بخشا نہ پر و بال دئے
شعر کے سانچے میں کیوں قلب و نظر ڈھال دئے


سوز غم کچھ تو کرے کم یہ ہوا سے کہہ دے
آج تو کھل کے برس جائے ہوا سے کہہ دے


گیت گا کر مجھے بہلائیں یہ مرغان چمن
پھول ہنس ہنس کے کریں دور یہ کانٹوں کی چبھن


کہہ نسیم سحری سے مری ہم راز بنے
مری مونس مری ہمدم مری دم ساز بنے


کہہ دے شبنم سے مری روح کو سیراب کرے
روش گل سے یہ کہہ دل مرا شاداب کرے


حرم و دیر کا حائل نہ یہ پردہ دیکھوں
تیرے آئینے میں معبود کا جلوہ دیکھوں