ما بعد جدیدیت: کیا انارکی ہے؟
مابعدِ جدیدیت کا فکری رجحان ایک سلبی رویے کا پروردہ ہے۔ اس رویے کا مرکزِ تحریک موجود سے اعراض اور مطلوب کو حتمیت کے ساتھ متعین کرنے سے گریز ہے۔ مابعد جدیدیت کے اساطین میں نٹشے، ہائیڈیگر اور سارتر ہیں ان سب کے ہاں مذکورہ بالا حقیقت کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے نزدیک متضاد اور باہم متصادم تصورات عقل کے لیے ناقابلِ قبول ہوں گے مگر زندگی انھی حقائق سے عبارت ہے۔ ژاک دریدہ نے مابعدجدیدیت کو پس ساختیات کے نام پر ادبی نظریہ بنا دیا ہے۔ اس کے نزدیک لفظ بھی معانی کا ویسا ہی ظرف ہے جیسا کہ ذہن ہے۔ مابعد جدیدیت میں دو نظریے ایسے ہیں جو اَب ان کا سرمایہ کہلا سکتے ہیں، یعنی نسائیت اور پس ساختیات۔
جدید مفکرین میں مشل فوکو ایک ایسا آدمی ہے جس کے ساتھ اپنے تعلق میں جو چیز سب سے زیادہ بامعنی اورپرکشش لگتی ہے، وہ ہے چڑ کی حد کو پہنچا ہوا اختلاف۔ بڑے آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں۔ مکمل اختلاف اورمکمل اتفاق کی مصنوعی فضا سے بلند۔ فوکو غالباً جدیدیت کاآخری بڑا نظریہ ساز (Theorizer) ہے۔ یہاں نظریے یا تھیوری کا مطلب یہ ہے کہ ایسا معرف (Definer) وضع کیا جائے جس سے تمام چیزیں Define ہو جائیں۔۔۔ اپنے اختلافات اور تضادات سمیت۔ اس کی ایک ضمنی تھیوری ہے جسے وہ Episteme کہتا ہے۔ Episteme کا ایک لفظ یا اصطلاح میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مادۂ علم بھی ہے، حدِّعلم بھی ہے اورمزاجِ علم بھی۔ فوکو کہتا ہے کہ ہر تہذیب کی یا بالفاظ دیگر ہر زمانے کی ایک مخصوص Episteme ہوتی ہے۔ اس تہذیب میں برپا ہونے والی کوئی علمی تحریک اورنظری سرگرمی اس سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ ایک زمانے کی Episteme دوسرے وقت کے لیے حوالہ تو ہے لیکن حجت نہیں بن سکتی۔ ایک ہی چیز کو دیکھنے کے لیے مستقل تناظر کامیابی کے ساتھ دریافت کرلینا یا انھیں ان کی کلیت اورجامعیت کے ساتھ قبول کرلینے کا کوئی مؤثر ضابطہ ایجاد کرلینا، Episteme ہے Post Modernism یا Post Modernity اس دورکا ایسا Episteme ہے جسے ابھی خود Defineہونا ہے۔ یہ کچھ ایسے نادیدہ اور غیر محسوس حدود کو نافذ اور قائم کر دینے والا ایک دائرہ ہے جس کا قطر اَبھی ناپا جانا ہے۔ انسانوں کی تہذیبی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ اپنے تمام تسلسل کو، اپنی تمام بنیادوں کو، ان کے تمام اجزا سمیت منہدم کرکے ایک نئے Episteme کی دریافت کا دعویٰ اوراپنی تمام علمی، جمالیاتی، تہذیبی بلکہ قرارواقعی شدت پیدا کرنے کے لیے کہاجائے تو وجودی سرگرمیوں کو اس Episteme پر عملاً قائم کرکے دکھا دینا، Post Modernism ہے۔ یہ رویے علمی، ادبی، تہذیبی مظاہر میں نمودار ہونے کے باوجود اپنا تعارف نہیں کرواتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی نظریے یا تہذیبی رویے کو اپنے تعارف کے لیے ماضی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے Post Modernism خود کو بے نیاز دکھانا چاہتا ہے۔ تاہم ایک سادہ تعارف یہ ہے کہ جدیدیت ناکام ہو چکی ہے، کلاسیکیت لغو ہو چکی ہے، حقیقت کو دریافت کرنے کے تمام زاویے فنا ہو چکے ہیں اور حقیقت کی ترجمانی کرنے والے سبھی تصورات مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہو چکے ہیں۔
اب انسان کو اوراس کے متعلقات کو چند نئی تعریفات سے define ہونا ہے۔ انسان کو اپنے علمی اور عملی Objects کے ساتھ تعلق کو بالکل نئی معنویت اور طرزِ احساس کے ساتھ از سر نو استوار کرنا ہے، یہ ہیں Post Modernism کے بنیادی مقاصد۔ مگرانھیں بتانے والا ان کا کوئی سیاق و سباق متعین کرکے نہیں دکھاتا۔ حتیٰ کہ خود اپنا تعارف بھی نہیں کرواتا۔ سو اس ساری گفتگو میں عین ممکن ہے کہ یہ چیز سامنے نہ آسکے کہ Post Modernism اپنی تعریف میں دیگر فکری themes کی طرح کچھ متعین اشارے یا واضح حدود رکھتی ہے یا نہیں۔ جس طرح ہم جدیدیت کی تعریف مقرر کرلیتے ہیں یا کلاسیکیت کے اصول بیان کر سکتے ہیں، اس طرح سردست Post Modernism کو define نہیں کرسکتے۔ ویسے کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی کسی تعریف تک سہولت سے پہنچا جا سکے۔
اس گفتگو کے تین حصے ہیں،
۱۔ Post Modernism کے محرکات کا تعین۔
۲۔ اپنی موجودہ شکل میں یہ کن اجزا سے مرکب ہے؟
۳۔ اس پر تنقید۔
گویا پہلا حصہ اس کے تاریخی محرکات پر مشتمل ہوگا، دوسرا حصہ اس کے احوال کا بیان ہوگا اور تیسرے میں اس پر نقد و نظر کا عمل ہوگا۔
کارتیزی روایت کی آمد کے بعد مغرب میں ایک چیزسے دستبرداری کا چلن شروع ہو گیا اور وہ یہ تھی کہ دیکارت سے پہلے غالب رجحان یہ تھا کہ چیزیں اپنے مظاہر اور دائرۂ ہستی کے فرق کے باوجود ہم اصل ہیں۔ وہ چاہے مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہوں، چاہے ما بعدالطبیعی عالم سے۔۔۔ دونوں اصل میں ایک ہیں۔ اور جس اصول کی بدولت یہ واحد الاصل ہیں وہ اصول اپنی ماہیت میں ما بعدالطبیعی ہے۔ اس کے ساتھ دوسری روایت یہ تھی کہ چیزیں خواہ ما بعد الطبیعی عالم وجود سے تعلق رکھتی ہوں یا طبیعی دنیا سے متعلق ہوں، ان کے Ontological استناد کا عمل ایک ہے۔ یعنی ان کی Ontological Logic ایک ہے۔ بہرحال اصولی رویہ یہی تھا کہ چیزوں کے ظاہری امتیازات کا اقرار کرتے ہوئے، ان کے طبیعی حدود کے فرق کو ملحوظ اورمحفوظ رکھتے ہوئے ان کی اصل کو دریافت کیا جاتا تھا۔ مگر دریافت کا یہ عمل ان کے ظاہری امتیازات اورفعلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک ما بعد الطبیعی منطق کی روشنی میں ہوتا تھا۔ اس سے بہت سارے مسائل بھی پیداہوئے۔ ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ طریقہ تو پرانا ہے کہ آدمی اس منطق ہی کا انکار کردے، تاہم ایسا کرکے یہ کبھی نہیں ہوا کہ آدمی طبیعی اور مادی دنیا کے حقائق کو بھی خیر باد کَہہ دے۔ ہوتا یہی آیا ہے کہ مابعد الطبیعی تصورات پر مبنی منطق کا انکار ہستی کے Metaphysical اصول کا انکار بن جاتا ہے۔ لیکن اس انکار سے بھی وہ مسئلہ طے نہ ہوسکا جو آخر میں آکر دیکارت نے طے کیا۔۔۔ یعنی یہ دونوں اقلیمیں، طبیعی اور ما بعد الطبیعی یا مادی اور روحانی، ایک دلیل کا مدلول نہیں ہیں، ایک اشارے کا مشارٌالیہ نہیں ہیں اورایک بنیاد پر قائم جڑواں منارے نہیں ہیں۔ ان کا قانون اثبات، ان کی فعلیت کا نظام، ان کی معنویت کا مرتبہ، ان کی حقیقت کادرجہ۔۔۔ سب مختلف ہیں۔ اسی وجہ سے اس نظریے کو ثنویت کہا گیا۔ دیکارت کا اصرار یہ تھا کہ جب تک ہم ان دونوں کو ایک دوسرے سے متوازی اورمستغنی حالت میں حقیقی اورمؤثر نہیں مانیں گے، اس وقت تک ہم ان مسائل کا نہ ادراک کرسکتے ہیں اور نہ انھیں حل کرسکتے ہیں جوانسانوں کو اپنی علمی، عملی اوراخلاقی نشوونما میں تقدیری انداز میں پیش آتے رہے ہیں۔ جدید مغرب دیکارت کے دیے ہوئے اس حل سے آج تک وفادار چلا آرہا ہے۔ روح اورمادہ دونوں ایک سی قطعیت کے ساتھ موجود ہیں لیکن موجودہونے کی کیفیت، احوال اورمعنویت میں بالکل مختلف ہیں۔ ایک کا قانونِ حرکت دوسرے پرلاگو نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کا اُسلوبِ ہستی دوسرے میں نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔ مغرب کی تمام تر تہذیبی پیش رفت اصل میں اسی نظریے سے پیدا ہوئی۔
اسی طرح جدید مغرب کی تشکیل میں دوسرا بڑا ہاتھ نٹشے کا ہے۔ نٹشے وہ آدمی ہے جس نے تمام انسانی حدود و قیود کا انکار کیا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے وجود کے اس سانچے ہی کو حقارت سے توڑ دیا جس میں انسان ڈھلتے ہیں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ جدید مغرب کی صورت گری میں سب سے بڑا ہاتھ کس کا ہے؟ تو کم از کم میں تو یہی کہوں گا کہ نٹشے کا۔ Post Modernist بھی پچھلے لوگوں میں سے اگر کسی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، یا یوں کَہ لیں اس کی تردید پر مائل نہیں ہیں تو وہ یہی نٹشے ہے۔ نٹشے وہ آدمی ہے جس نے اہل جدیدیت اور ارباب ما بعدجدیدیت کی طرح انسان کی تشکیل نو کی بات نہیں کی بلکہ وہ انسان کو اس کی وجودی ساخت ہی میں فنا کر دینا چاہتا تھا۔ اس کے نزدیک انسان اس وجودی نقص میں مبتلا ہے جو اصلاح کا نہیں، انہدام کا متقاضی ہے۔ جب تک human conditions کو تمام مظاہر سمیت تہس نہس نہیں کر دیا جاتا، زندگی کی تکمیلی صورتیں پیدا نہیں ہوں گی۔ یہیں سے نفیِ محض کے اس رویے کی بنیاد پڑی جو Post Modernism کی غالباً سب سے بڑی اساس ہے۔
تیسرا مرکزی آدمی ہے مارٹن ہائیڈیگر اس نے واضح لفظوں میں لیکن نہایت پیچیدہ اُسلوب کے ساتھ یہ بتایا کہ انسانی نفس میں سب سے قوی داعیہ، داعیہ ٔ بودن نہیں ہے بلکہ داعیۂ نابودن ہے۔ انسان کا سب سے گہرا تجربہ، اس کاسب سے پرکشش حال، اس کی شخصیت کی ساخت میں سب سے ضروری اورمضبوط عنصر، اس کے تمام تصورات کی تشکیل میں سب postmodern-art-21841718سے زیادہ بامعنی اورکارآمد جوہر اس کی موت ہے، زندگی نہیں۔ آدمی کا سب سے حقیقی، سب سے انفرادی اور سب سے مکمل تجربہ موت کا تجربہ ہے۔ چیزیں اس وقت تک مکمل نہیں ہوتیں جب تک وہ انفرادی نہ ہو جائیں یا انفرادیت کے ساتھ زندہ مناسبت نہ پیدا کرلیں یاانفرادیت کی ملکیت اورحصہ نہ بن جائیں۔ ہائیڈیگروہ شخص ہے جس نے نفس انسانی کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں کو عقلی اورجمالیاتی شعور کے پورے امتزاج کے ساتھ کھولااور کھنگالا ہے۔ اب تک کی جرمن فلسفیانہ روایت کے برخلاف اس نے حقائق کی تمام سطحوں کو نفس انسانی کے احوال کاحصہ بنا کر دکھایا ہے۔ حقیقت کی طرف فلسفیانہ پیش قدمی کی پوری روایت میں ہائیڈ یگر شاید پہلا فلسفی ہے جس نے نفس اورلفظ کے غیر محدود تجزیے کو حقائق تک رسائی کا بنیادی ذریعہ بنایا۔ ہائیڈیگرعلامہ اقبال کا معاصر تھا، ان دونوں کا تقابلی مطالعہ ہمیں خاصے دلچسپ نتائج تک پہنچا سکتا ہے۔ حقائق کی اقلیم میں انسان کو مرکزی منصب پر فائز کر دینے کا رویہ دونوں کے یہاں شدت سے موجود ہے۔ اقبال اس مرکز حقائق انسان کو ایک ایسے تناظر میں دیکھتے ہیں جواخلاقی Idealism یا مذہبی Romanticism کے عنوان کے تحت لایا جاسکتا ہے، لیکن ہائیڈیگر اپنے دوسرے نامور معاصر برگساں کی طرح اپنی انسان مرکزی کی اکثر بنیادیں نفس انسانی کی شعوری+حیاتیاتی ساخت پر رکھتا ہے۔ گویا اقبال Ideal Man کو actualizeکرناچاہتے ہیں اور ہائیڈیگر actual manکو Idealizeکرکے دکھاتا ہے۔
بہرحال ہائیڈیگر کے نزدیک انسان کی اصل قوت اور اس کی حقیقی urge جذبۂ زندگی نہیں بلکہ جذبۂ مرگ ہے۔ سب سے بڑے معنی موت میں ہیں۔ زندگی معنی کا ناکافی ظرف ہے۔ یہ پیالہ ذرا سا بھر کر چھلک جاتا ہے۔ اس چھلکنے کی وجہ ایک تو اس کا چھوٹا ہونا ہے اور دوسرا اس کا متحرک ہونا۔ اور یہ حرکت بھی ایک فضول سے زمانی بہاو کی مرہون منت ہے۔ آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ یہ باتیں جس طرزِ احساس کی تسکین کرسکتی ہیں، ہم غالباًاس کے امیدوار بھی نہیں ہیں۔
ہائیڈیگر نے اس Nihilism کو ایک نفسیاتی بنیاد فراہم کر دی جس میں نٹشے نے ایک مابعدالطبیعیاتی شکوہ پیدا کردیا تھا۔ نٹشے اظہار میں اور تخیل میں جس شکوہ کا گویا موجد ہے، اس کی وجہ سے انسان اورانسانی دنیا جس احساسِ تحقیر میں مبتلا ہوگئی، انسان کے بارے میں پیداہونے والی کسی روایت میں اس کی جھلک بھی نہیں ملتی۔ نٹشے نے فلسفیانہ سطح پر Absurdism کا ایک ایسا مینار کھڑا کردیا جس کی بلندی معنی کے تمام structures سے کہیں زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ نٹشے کا نا ممکن حد تک پہنچا ہوا خطیبانہ شکوہ Metaphysics پر پڑنے والا سب سے طاقتور گھونسا ہے، لیکن اس میں کارفرما ساری طاقت Metaphysical ہی ہے۔ نٹشے اپنے اہداف کو اس قدراونچائی پر رکھتا ہے کہ وہ ممکن الحصول نہیں لگتے اور نٹشے کا مقصدبھی یہی تھا۔۔۔ مخاطب کی تحقیر اور اس کے اندر ترسنے کی مستقل کیفیت پیدا کر دینا۔ اس نے بہت کامیابی کے ساتھ ہمیں یہ باور کروا دیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تجربے میں جھونک دیا کہ اصل معنی یا حقیقت انسانیت کی سمائی سے بالکل باہر ہے۔ انسان اپنے ہی وہم سے بھری ہوئی ایک متحرک پرچھائیں ہے، جوکائناتِ وجود کے کچھ حصوں پر کالک کی طرح منڈھ جاتی ہے۔
ہائیڈیگر نے نٹشے ہی کے چلن پر چلتے ہوئے کمال یہ کیا کہ جذبۂ مرگ کو جیسے محسوس کروا دیا۔۔۔ حس کی سطح پر بھی اوران سطحوں پر بھی جہاں ایسے تصورات بنتے ہیں جن کوآدمی شعور کی مجموعی قوت اور یکسوئی کے ساتھ Idealize کرتا ہے۔ ایک پہلو سے دیکھیں تویوں لگتا ہے کہ ہائیڈیگر نے نٹشے کی کچھ باتوں کو زیادہ قابلِ عمل، زیادہ مؤثر اور زیادہ مانوس بنا دیا۔ نٹشے نے Nihilism میں جو مجذوبانہ زور پیدا کیا تھا، ہائیڈیگر نے اسے شعور کا بنیادی حال اور حاصل بنا دیا۔ اس نے گویا ایسا کام کیا کہ نٹشے کا Ideal سکڑ کر قابل عمل بن گیا۔ یعنی ایک مناسب سائز میں آکر actualize ہونے کے قابل ہوگیا۔ Postmodernism کے سلسلے میں ایک بہت بنیادی بات یہ ہے کہ اس سے نٹشے کے Ideals یا تو actualize ہو گئے ہیں یا اس عمل سے گزر رہے ہیں۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا حال ہی ہمارا مستقبل بعید ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ مستقبل میں ہوتے ہیں۔ یہ اگر دو ہزار سال قبل مسیح میں بھی پیدا ہوئے ہوں تو بھی ان کی موجودگی ہمارے مستقبل میں ہے۔ وجودیوں میں میرا خیال ہے کہ ایسی شخصیت صرف ہائیڈیگر کی ہے۔ دوسرے لوگ ہمارا ماضی ہیں۔ اس کی Being and Time کسی بھی اعتبار سے فلسفے کی کسی کتاب سے فروتر نہیں۔ اس میں مباحث کی اکثریت ایسی ہے جو بالکل original ہے اورجو موضوعات بظاہر روایتی ہیں انھیں بھی دیکھنے کا تناظر یکسر نیا ہے اوران کی logicization بھی ایسی ہے جو ہائیڈیگر سے پہلے موجود نہ تھی۔ یعنی اس نے یا تونئی چیزبنا کر دکھائی ہے یا پھر پرانی چیز پر پڑے ہوئے تمام ہاتھ ہٹا کر اس کو اپنے قبضے میں لیا ہے۔ یہ ایسا آدمی تھا جس نے شعورانسانی کے تمام اجزا کو ایک ماوراے عقل جمالیاتی حس و شعورکے ساتھ نہایت پختگی، کمال اور گہرائی کے ساتھ قایم کیا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ شاید اس بات سے بھی خوش ہو جائیں کہ ہائیڈیگر نے شاعر کو فلسفی پر غالب کیا ہے یعنی افلاطون سے ہمارا بدلہ لے لیا۔
ان تین کے بعد کئی لوگ آئے جنھوں نے Post Modernism کی اصطلاح کو ایک فکری پیرائے میں استعمال کیا۔ Architecture، موسیقی، سینما وغیرہ سے ہوتا ہوا یہ لفظ ادب میں آیا اورپھر وہیں اس کے تھیوری بننے کے مراحل شروع ہوئے۔ فلسفے میں ابھی اس کا کوئی بڑا نمونہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے تصورات کو فلسفیانہ تعریفات کے دائرے سے فی الحال دور ہی رکھنا چاہیے۔ یوں اس کی فلسفیانہ بنیادیں بتائی تو جاتی ہیں لیکن وہ سب اس کی پیدائش سے پہلے کی ہیں۔
چونکہ ہمیں اس کی تاریخ بیان نہیں کرنی اس لیے مناسب یہی ہے کہ ترتیب کا بہت زیادہ لحاظ رکھے بغیر اس کے اہم ترین اجزا کو کہیں اختصار اور کہیں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔ کوشش یہی ہوگی کہ کوئی ضروری بات نظر انداز نہ ہو، باقی رہا مصنفین اور کتابوں کا تذکرہ تو وہ یہاں ہمارا مقصود نہیں ہے۔ ممکن ہے کچھ اہم نام رہ جائیں لیکن اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ بنیادی مباحث بہرحال اس گفتگو میں آ جائیں گے۔
ما بعدجدیدیت کا مجموعی فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بنیادی دعوے کو سمجھا جائے۔ وہ دعویٰ یہ ہے کہ حقیقت وغیرہ کا کوئی بھی بیان آفاقی و ابدی، ہمہ گیر و مستقل اور عمومی و واجب التسلیم نہیں ہوسکتا۔ یہاں دو باتوں کا خیال رہے کہ اہل ما بعدجدیدیت کے نزدیک کل وجودبیان محض ہے۔ جسے ہم حقیقت کہتے ہیں وہ بھی فقط ایک بیان ہے جس میں اصطلاحات وجودی استعمال ہوئی ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ بیان جسے وہ بیانیہ Narrative کہتے ہیں، تصور اور تصدیق کی منطق سے بے نیاز ہوتا ہے لہٰذا اس میں جاننے یا ماننے کا مطالبہ داخل کرنا لغو اور بے معنی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو وہ یہ کَہ رہے ہیں کہ حقائق وغیرہ ایک خاص شعور کے تصورات ہیں جن میں عموم اور ہمیشگی کا گذر ہو ہی نہیں سکتا۔ عمومی اور مستقل بیان کو Grand یا Meta Narrative کہا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ تصور ہوتا ہے جس سے واقعی اورحقیقی دنیا پر زبردستی کوئی تعبیر تھوپی جائے اور یہ طے کر دیا جائے کہ فلاں چیز یہ ہے اور اس کا مقصد و حقیقت یہ ہے۔ یعنی حقیقت بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو خود چیز کے علاوہ ہوتی ہے، ان لوگوں کی نظر میں یہ ایک چالاکی ہے جس کے ذریعے سے آدمی چیزوں پرغالب اور متصرف ہونے کا راستہ نکالتا ہے۔ بقول سوشیور حقیقت وغیرہ کچھ نہیں ہے، بس ایک زاویۂ نگاہ ہے۔ میں چیزکو جس زاویے سے دیکھتا ہوں، اس کی حقیقت بدل جاتی ہے مگر چیز وہی رہتی ہے۔
Grand Narrative نے ہمیں جس دھوکے میں رکھا ہوا ہے، اس سے نکلے بغیر ہم انسان اور دنیا کے تعلق کے حقیقی درو بست اور واقعی مطالبات تک نہیں پہنچ سکتے۔ تمام چیزیں، تمام سچائیاں چھوٹے چھوٹے وقتی پیمانوں پر ہیں اورایک سادہ سے خارجی حضور (presence) سے عبارت ہیں۔ Grand Narratives کی حاکمیت نے ان لوگوں کے نقطۂ نظر سے صرف علمی نقصان ہی نہیں پہنچایا بلکہ ان کا ضرر سیاسی اور سماجی بھی ہے۔ ان سے جبریت، عدمِ مساوات، مطلق العنانی اورظلم نے جنم لیا ہے۔ اسی لیے اکثر Post Modernist سوسائٹی اور اسٹیٹ کے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سماجی نظام ہے، سوشل اسٹرکچر ہے۔ معاشرہ چونکہ اقدار پر قائم ہوتا ہے اور اقدار میں عموم اور استقلال کم از کم تصور کی سطح پر لازم ہے، اس لیے یہ لوگ معاشرے کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں اقدار بھی Grand Narratives ہیں۔ ان کے خیال میں معاشرہ ایسی وسعت کا حامل ہونا چاہیے جس میں اختلاف اور تصادم کی گنجائش موجود ہو۔ البتہ jorges pineda painting childscribbleچیزوں کا ایک عملی مصرف ہے، اس میں نہ کوئی اختلاف ہوتا ہے اور نہ ہونا چاہیے۔ مثلاً میرے اور آپ کے عقیدے میں فرق ہے تو پانی پینے کے مسئلے پر ہمارا کوئی اختلاف نہیں، میری اورآپ کی رائے میں تصادم ہے تو بہرحال بس پر سوار ہونے میں ہم آپس میں متفق ہیں۔ اسی اتفاق سے ہمارے درمیان ایک نظام تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت اور پرداخت کرنی چاہیے۔ باقی آپ کی رائے صحیح ہے تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور میری رائے غلط ہے تو اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لیوتار (Leyotard) کہتا ہے۔ بظاہر یہ بھی ایک Grand Narrrative ہی ہے جس نے ما بعد جدیدیت کی تشکیل میں بہت بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی کتاب کی بسم اللہ ہی یہ ہے کہ سچائیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں، مقامی ہوتی ہیں اور وقتی ہوتی ہیں۔ ان کو ان کی اپنی شرائط کے ساتھ تسلیم کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ اپنے وقتی تعلق کو تہ دل سے ماننا ہوگا اور اپنی زندگی کے انداز کو خیالات کی بجائے اسی living presence سے ہم آہنگ رکھنا ہوگا۔ اس کے بعد انسان کے لیے وہ مسائل پیدا نہیں ہوں گے جو اس پر مصیبتیں لاتے ہیں۔
ما بعد جدیدیت کو نظریے کے لحاظ سے Theory of Derealization بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ Post Modernism پر نٹشے کس حد تک اثر انداز ہوا ہے۔ انسان اوردنیا کے باہمی تعلق سے پیدا ہونے والے ہر تصور اورہر واقعیت کو مکمل طور پر رد یا نظر انداز یا مسمار کیے بغیر اس انسان اوراس دنیا کووجود نہیں مل سکتا جن پر Postmodern Condition کا قیام ہے۔ لیوتار نے کہیں کہا ہے کہ آخری Grand Narrative مارکس نے وضع کیا۔ اس کے نظریے پر مبنی جو سوسائٹی متشکل ہوئی یا جو State Structure وجود میں آیا وہ اپنی اساس میں اتنا ہی مجرد تھا جتنا کہ وہ تمام اجتماعی نظام تھے جن کی تردید پر مارکسی تھیوری کا دارومدار ہے۔ دوسرے یہ کہ اس تھیوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نظام بھی جبر کی شدت میں انھی نظاموں کی طرح تھا جن سے لڑنے کے لیے مارکس کھڑا ہواتھا۔ لیوتار کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا کہ اگر مارکس غلط ہو سکتا ہے توسب کچھ غلط ہوسکتا ہے۔
یہاں سلسلۂ کلام کو ذرا دیر کے لیے معطل کرنا ہوگا کیونکہ یہ دریدا کے ذکر کا بہت مناسب موقع ہے۔ ژاک دریدا وہ آدمی ہے جس نے Post modernism کو ایک Literary Theory بننے میں کامیابی دلوائی اس تھیوری کا نام ہے Deconstruction Theory یعنی ردِتشکیل کا نظریہ۔ Deconstruction کیا ہے؟ لفظ میں مفروضہ Meaning structure اور ذہن میں موجود Meaning Form کو ختم کر دو۔ یعنی لفظ میں پہلے سے موجود معانی کو لفظ سے خارج کرو، دماغ میں پہلے سے راسخ تصورات کو مٹائو۔۔۔ اس کے بعد ہی تم منتہائے اظہار اور منتہائے ادراک کو یکجان کر سکتے ہو۔ انسانی شعور کی سب سے بڑی تمنا دریدا کے نزدیک یہ ہے کہ غایتِ ادراک اورغایتِ اظہار ایک ہو جائے۔ وہ کہتا ہے کہ لفظ کے معانی ذہن میں موجود معانی سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے معانی انسانی ذہن کی پکڑ میں نہیں آ سکتے۔ حتیٰ کہ منشاے متکلم کا بھی اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں کیونکہ متکلم کا انحصار بھی ذہن میں موجود معانی پر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے فلسفے یا نظریے کوالتواے معنی کافلسفہ یانظریہ کہتا ہے۔ یعنی معانی ہمیشہ ملتوی ہوتے رہتے ہیں اور جو کچھ ہماری تحویل میں آتا ہے وہ معنی نہیں ہے بلکہ معنویت کا ایک جزو ہے۔ وہ معنی اور معنویت (Meaning and Meaningfullness)میں فرق کرتا ہے۔ شے کے معنی گرفت میں نہیں آسکتے، اسے اپنے شعور کے لیے مفید استعمال بنانے کی خاطر شعورشے سے کچھ معانی منسوب کردیتا ہے۔ یہی معنویت ہے یعنی معنی کا احتمال جو حصول معنی کوایک بعید از رسائی مقصود کے طورپر زندہ رکھتا ہے اورشعور کو اس کی طرف یکسو رہنے میں مدد دیتا ہے۔ معنویت اجتماعی نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ذاتی اور انفرادی ہوتی ہے۔ چیزیں اپنا اظہار کرکے اپنے معنی کو مکمل یا متعین یاظاہر نہیں کرتیں بلکہ انھیں ملتوی کرتی چلی جاتی ہیں۔ تھیوری کی سطح پر اگر Postmodernism کے پاس کچھ ہے تو وہ یہی Deconstruction Theory ہے یا پھر Feminism کو بھی Postmodern Theory کہا جاتا ہے۔
سردست ما بعد جدیدیت کے پاس یہی دو theories ہیں۔ Feminism کی صورت یہ ہے کہ حقوق نسواں یا خواتین کے سماجی مرتبے کا تصور بہت قدیم سے چلا آرہا ہے، اس تھیوری میں اس تصور کا کوئی بڑا کردار نہیں ہے۔ اس باب میں ما بعد جدیدیت کا تناظر بالکل الگ ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں حقائق کو حقائق کہنے کے جو دلائل بنائے گئے ہیں وہ سب مردانہ ہیں۔ یعنی جس چیز کوکوئی نام دیا گیا ہے یا کوئی معنی دیے گئے ہیں وہ تمام اسما و معانی مردانہ ذہن اور اختیار کی پیداوار ہیں۔ ہم نے دنیا کو، چیزوں کو حتیٰ کہ خودانسانیت کو عورتوں کی نظر سے دیکھا ہی نہیں۔ اسی وجہ سے شعور کی نسائی ساخت ہمیشہ سے معطل چلی آرہی ہے۔ صرف سیاسی اور تہذیبی معنوں میں نہیں بلکہ یہ ایک کلی تھیوری ہے۔ اب تو اس کے نام سے باقاعدہ ایک مکتب تنقید وجود میں آچکا ہے جس کا نام ہی Gynae Criticism ہے۔ اس کا ہدف یہ ہے کہ عورتیں اپنے شعور کی ساخت سے وفادار رہتے ہوئے پورے نظامِ معنی کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور اس کے اظہار کے نسائی زاویے اور سانچے بنائیں۔
Postmodernism یا Postmodernity پر گفتگو کرتے ہوئے دو چیزوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے، ایک اس کی تھیوری اور دوسرے اس کے تخلیقی مظاہر۔ اگر آپ کو تھیٹر کی تاریخ سے دلچسپی ہو تو بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایک بہت بڑی تحریک چلی تھی جس نے شیکسپیئر کے بعد سب سے بڑے ڈراما نگار پیداکیے۔ بلکہ میری رائے میں ان میں کچھ لوگ ایسے تھے جنھوں نے شاید شیکسپیئرکو چھو لیا تھا۔ میری مراد Theater of the Absurd یا Absurd Theater کی تحریک سے ہے۔ اس تحریک نے واقعۃً ڈراما نگاری کی پوری روایت کو منقلب کر دینے والے لوگ پیدا کیے، مثلاً Eugene Ionesco، Samuel Beckett وغیرہ۔ یہ دونوں خاص طورپر بعض اعتبارات سے شیکسپیئر کو بھی پیچھے چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طورپر Waiting for Godot کا مرکزی کردار اپنی الجھنوں میں Hamlet سے بلکہ شیکسپیئر کے کسی بھی کردار سے زیادہ وسعت، گہرائی اورمعنی خیزی رکھتا ہے۔ Absurd ڈرامے ظاہر ہے سمجھ میں آنے کے لیے نہیں لکھے گئے تھے لیکن ان کو نہ سمجھ سکنے کی حالت بھی اتنی کیفیت انگیز اور معنی خیز ہے کہ آدمی اپنے دستیاب طرز احساس اور اُسلوبِ ادراک سے اسے سہارنہیں سکتا۔ دیکھیے نٹشے یہاں بھی موجود ہے۔ یہ ایک عجیب چیز ہے جس کا ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے کہ کوئی چیز بالکل سمجھ میں نہیں آتی لیکن اس کے باوجود ہم اسے عظمت کے آخری درجے پر کیوں رکھتے ہیں۔ یہ کوئی ہمارے اندر ذوق کا اصول کار فرما ہے جو فہم کو ناگریز نہیں رہنے دیتا؟ بہرحال چیزوں سے ذہنی کے ساتھ ایک ذوقی تعلق بھی ہوتا ہے اور ذوق کی تسکین بعض مرتبہ فہم کو نظر انداز کرکے بھی ہو جاتی ہے۔
مابعد جدیدیت میں چاہے اس بات پر کچھ اختلاف ہو لیکن مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ Postmodernism کے ادبی اثاثے کا سب سے قیمتی حصہ Absurd Plays ہی ہیں۔ Absurdدراصل وہ حقیقت یا معنی ہے جو انسانی ذہن کی گنجائش سے زیادہ ہے۔ Absurd Theater نہ ہوتا تو د ریدا اپنے بنیادی نظریۂ التواے معنی تک شاید نہ پہنچ سکتا۔ Waiting for Godotنہ ہوتے تو دریدایہ شہرۂ آفاق فقرہ شاید نہ کَہہ سکتا،
Meanings are beyond presence
مختصر یہ کہ Postmodern Theory میں Deconstruction، Post Structuralism، Gender Crisis، Gynae Criticism وغیرہ شامل ہیں۔۔۔ جب کہ اس کا دوسرا رخ Postmodern Condition ہے۔ یعنی یہ ایک تھیوری بھی ہے اور ایک صورت حال بھی۔ اکثر لوگوں کا زور اس کے تھیوری نہ ہونے پر ہے، کیونکہ تھیوری بنتے ہی یہ خود ایک Meta Narrative بن جائے گا۔ ان کا زیادہ اصرار یہ ہے کہ Postmodern Condition کو سمجھا جائے یعنی اس presenceتک محدود رہا جائے جس کو Postmodern کہا جا رہا ہے۔ ویسے ایک رخ سے یہ بات خاصا وزن رکھتی ہے۔ اگر ذرا سا غور سے دیکھا جائے تو بالکل واضح طورپر احساس ہو جائے گا کہ یہ ایک نئی صورت حال ہے اور اس کی معنویت کو جاننے کے لیے کچھ نئے اسالیبِ فہم درکار ہیں۔
مابعد جدیدیت کا ایک سادہ سا ایجنڈا بھی ہے جو ہم ایسے عوام الناس کے لیے بنایاگیا ہے۔ اس کے تین حصے ہیں،
۱۔ صرف ایک چیز ایسی ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا اور وہ چیز ہے انسان کی آزادی۔ انسانی آزادی کا تصور اوراس کی اطلاقی صورتوں پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ اس آزادی کو سلب کرلینے والا سب سے بڑا ذریعہ انسانی شعور کا اعتقادی (Doctrinal) حصہ ہے۔ یعنی جب شعور کسی چیز کو مستقل مان لیتا ہے اوراپنے ماضی کے عمل سے اپنی موجودہ صورت حال کو ردّ و قبول کرنے کا عادی بن جاتا ہے تو یہ انسانی آزادی کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ہم انسانی ذہن کی اعتقادی حالت کوبدل کر رہیں گے۔ اعتقاد (Doctrine) سے ان کی مراد ہے کسی بھی طرح کا متعین نظام اور کسی بھی طرح کی کوئی ایسی فکر جوانسان کی تمام سرگرمیوں کو اپنے قبضے میں کرلے، جیسے مارکسزم یا کوئی بھی مذہب۔ عقایدیا عقیدے جیسا تحکم رکھنے والے نظریات انسان کی وجودی پروازکا رخ اپنی طرف کرلیتے ہیں۔ آزادی کی اس سے بڑی نفی ممکن نہیں۔
۲۔ ہمیں انسان کی سمجھ میں اضافہ نہیں کرنا۔ ہم انسان کے شعور کو چیزوں کا جمالیاتی احیا اور اعادہ کرنے والی قوت بنانا چاہتے ہیں۔ اسی سے وہ سادہ، خالص اور حقیقی presence شعور کی پوری پوزیشن کو بدل دینے والی طغیانی کی طرح تجربے میں آئے گی۔
۳۔ منشاے متکلم کوئی چیز نہیں۔ قاری متن سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، وہی متن کی حقیقت ہے۔
مغرب کی وہ تحریکیں جنھوں نے اس کی علمی و تہذیبی تاسیس کی ہے، ان سے واقفیت پیداکرنا بہت ضروری ہے۔ مغرب کی تشکیل اور ردِّ تشکیل کے چند مراحل میں۔۔۔ پہلا مرحلہ وہ ہے جب عیسائیت کو Romanize کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مغرب نے اپنی بعض بنیادی علمی اور تہذیبی اقدار حاصل کیں۔ اس کے بعددوسرا مرحلہ آتا ہے نشاۃ ثانیہ کا۔ عیسائیت کی Romanization نے مغرب کی جو علمی اور تہذیبی تشکیل کی تھی، اس مرحلے پر ان تشکیلات کو خاصی حد تک مسترد کیا گیا۔ اس صورت حال میں مغرب نے اپنی ردِّ تشکیل کا ڈول ڈالا، علمی بنیادوں پر بھی اورتہذیبی بنیادوں پربھی۔ اس کے بعد تیسرا اہم ترین مرحلہ ہے، جدیدیت۔ جدیدیت کا وہ مطلب نہیں ہے جو عام طورپر ہم لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ دراصل Enlightenment Project تھا۔ جدیدیت گویا نشاۃ ثانیہ کی تکمیل بھی ہے اور تجدید بھی۔ جدیدیت کا المیہ یہ ہے کہ مابعدالطبیعیات یا زیادہ صحیح لفظوں میں مذہبی و روایتی مابعدالطبیعیات کا انکار کر دینے کے باوجود اس کا اپنا انداز نظر وہی تھاجو مابعدالطبیعی حقائق کو ماننے سے پیدا ہوتا ہے۔ جدیدیت حقیقت کی واحد تعریف سے بغاوت کا نتیجہ تھی۔ اس کے نزدیک ایسی کوئی تعریف جو کل پر صادق آئے اور تغیر کے امکان سے پاک ہو، ممکن نہیں۔ ا س کی نظر میں یہ قابل عمل بھی نہیں ہے اور سائنس وغیرہ کی ترقی سے علمی استدلال اور مشاہداتی استناد میں جو تبدیلی آئی ہے، یہ تصور اس کے مطابق بھی نہیں ہے۔ یہیں سے Enlightenment Project کے نام سے ایک ایسا خیال سامنے آیا جسے Modernism کہتے ہیں اور Modernityبھی۔ اس خیال کا مقصود یہ تھا کہ انسان چیزوں کو اس نظر سے نہ دیکھے کہ وہ انھیں ذریعہ بنا کرکسی مفروضہ حقیقت تک پہنچ جائے گا۔ روایتی انسان شے کو صورت ومعنی اور حقیقت و مظاہر جیسے متوازی تضادات میں دیکھنے کا عادی تھا۔ اہل جدیدیت کے نزدیک ان متقابلات میں محبوس ہو کرشعور حقیقت کو تو کیاپاتا خود شے سے بھی دور ہوگیا۔ چیزوں میں کئی ایسے امکانات بر سر عمل ہوتے ہیں جواس انداز نظر کے جبر کی وجہ سے اوجھل ہو کر رہ گئے۔ چیزوں کو ان کے خالص پن اور ان کی ساخت میں کارفرما پیچیدگی اور تہ داری کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ یہیں سے وہ علمی اور تہذیبی فیصلے وجود میں آئیں گے جو دنیا کو ہر معنی میں انسانی بنا دیں گے۔ یہ مغرب کی تشکیل نو تھی۔ مگر اس کو بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہونا پڑا۔
مارکس کی مقبولیت کا پھیلاو، پہلی جنگ عظیم اور پھردوسری جنگ عظیم کے آثار کی نمود۔۔۔ ان تین تاریخی مظاہر کو بیک وقت نظر میں رکھنا چاہیے۔ پہلی جنگ عظیم میں مغربی تہذیب کی نظریاتی بناوٹ کمزور پڑی، مارکس کی آمد اور مقبولیت نے مغربی تہذیب کی بنیادی ترین ساختوں کوادھیڑ کر رکھ دیا۔۔۔ یعنی مارکس وہ آدمی تھا جس نے مغرب کے اُسلوبِ حیات کو الف سے یا تک تبدیل کردیا۔۔۔ یہ خطرے کی دوسری گھنٹی تھی جو مغرب جدید نے سنی۔ پھر جب دوسری جنگ عظیم ابتدائی مراحل میں تھی اورنظریاتی شکل بھی اختیار کرتی چلی جارہی تھی، یعنی قوم پرستی، اس وقت کچھ لوگوں کو یہ خیال آیا کہ جدیدیت کوئی منزل نہیں بلکہ محض ایک راستہ تھا جس نے ہمیں تباہی کے صحرا میں لا پہنچایا۔ ہم نے چیزوں کو ان کو اپنی اپنی حد میں رکھتے ہوئے اپنے اعمال کا ایک پورانظام ترتیب دیا، لیکن اس کا بس یہ نتیجہ نکلا کہ اب ہمارے ہاں ایسی خود کش صورت حال پیداہو رہی ہے، اورکوئی ایسا نکتہ بھی ہمارے پاس نہیں رہا جو ہمیں ایک دوسرے سے ٹکرا کرتباہ ہونے سے روک سکے۔ مابعدجدیدیت دراصل وہی نقطہ ہے جو جدیدیت کے ناکام ہو جانے کے بعد مغرب کو میسر آیا۔ اس لیے Postmodernism کا سیدھامطلب یہ ہے، ’’جدیدیت کے بعد پیداہونے والا نظریہ یا صورت حال۔‘‘
اس نظریے نے جدیدیت کو جن بنیادوں پر چیلنج کیا، وہ بنیادیں بہت گہری ہیں۔ یہ انسانی تشخص کو تمام موجود حدود، تعریفات اور اصطلاحات سے آزاد کروانے کے موقف پر استوار ہے۔ اس نظریے کی روسے انسان وہ وجود ہے جسے اپنے موجود ہونے کے کسی بھی حصے میں باہر سے کسی سند کی ضرورت نہیں۔ ایسا خودمنحصر تشخص شاید پہلی مرتبہ بیان میں آیا ہے۔ تاریخ فکر میں تمام بڑے بڑے خیالات، تمام بڑے بڑے فلسفے اپنے آپ کو با ضابطہ خیال یا باقاعدہ فلسفہ کہلوانے کے لیے سب سے پہلے ایک سوال کا جواب دیتے ہیں، تمھارا تصور انسان کیا ہے؟ Postmodernism اس امتحان پر پورااترتا ہے۔ اس کے پاس باقاعدہ ایک تصورِ انسان ہے جو اجنبی ہونے کے باوجود کم از کم زندگی کے اضطراری شعور کی تائید ضرور کرتا ہے۔ ایک Postmodernist یہ کَہ سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کا تصور انسان بالکل نیا ہے بلکہ اس تصور میں وہ طاقت۔ ور واقعیت بھی پوری طرح کارفرما ہے جس کے بل پر تمام روایتی تصوراتِ انسان کو رد کیا جا سکتا ہے۔
جدیدیت نے حقیقت محض کا انکار تو کیا تھا لیکن اس کے منطقی جواز کو چیلنج نہیں کیا تھا بلکہ اسے شعور کی بعض سر گرمیوں میں دخیل بھی رہنے دیا تھا۔ Postmodrnism میں حقیقت محض وہ تصور ہے جس نے شعور کی اس ساخت میں جنم لیا تھا جو حقیقی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے فنا ہوچکی ہے۔ حقیقت کا تصور جس دماغ میں پیدا ہوتا تھا وہ دماغ اب آثار قدیمہ کا حصہ ہے، لہٰذا یہ بات مہمل سے بھی مہمل ہے کہ فلاں چیز کی یہ حقیقت ہے، اس حقیقت کی یہ دلیل ہے اوراسے ماننے کا یہ فائدہ ہے۔ یہ ساری سکیم، یہ ساری ترتیب انسان کی کئی صدیاں ضائع کرکے بالآخر اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اس مبحث میں پوسٹ ماڈرنسٹوں کی شدت کا یہ عالم ہے کہ وہ حقیقت کو خواب اور تصور کے طورپر بھی قبول کرنے پرآمادہ نہیں ہیں۔ ان کی نگاہ میں حقیقت موہومِ محض ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ان کی ایک بنیادی اصطلاح ڈسکورس(discourse) ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر چیز محض presence ہے۔ یعنی ہر چیز ظاہر ہی ظاہر ہے، اور اس ظاہر کی بناوٹ اسی طرح کی ہے جیسے کتاب میں الفاظ کی ہوتی ہے تو ہمارے اور چیزوں کے درمیان اورہمارے آپس کے تعلق کی اصلیت فقط اتنی ہے جتنی کتاب اور قاری کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کو وہ بین المتنیت (Intrtextuality) کہتے ہیں۔ بین المتنیت ادب میں دوسرے معنوں میں ہے لیکن اپنے دیگر اطلاقات میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ڈسکورس کے اجزا آپس میں اس طرح متعلق ہوتے ہیں جیسے ایک متن دوسرے متن سے۔ جب تک ہم تعلق کی اس سطح کو دریافت نہیں کریں گے، ہم نہ صرف یہ کہ اپنی آزادی کا شعور قایم نہیں کر پائیں گے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کی آزادی کو ملحوظ اورمحفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی نہیں بن سکیں گے۔ اسی لیے ان لوگوں کے نزدیک دو چیزوں میں اختلاف ان کے تعلق ہی کی ایک نوع ہے۔ اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
جدیدیت انسانی شعور کی کچھ عمومی بنیادوں کی قائل تھی لیکن Postmodernism کے خیال میں شعور انسانی کو کسی بنیاد پر قایم رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تصور ہی بے معنی ہے کہ چیزوں کو دیکھنے کاایک بے لچک یا مستقل زاویہ تلاش کیا جائے۔ انسانی شعور اس کے لیے بنا ہی نہیں۔ انسانوں نے زبان کی ایجاد کے بعد لفظ سے مغلوب ہو کر اپنے شعور کو اس وہم میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ہم شے کو دیکھنے اورجاننے کا ایک مستقل تناظرپیدا کرسکتے ہیں۔ لفظوں کی فتح قبول کرلینے کی وجہ سے شعور انسانی ایک ہمہ گیر بگاڑ میں مبتلا چلا آ رہا تھا جس کوا پنی دانست میں ان لوگوں نے ٹھیک کر دیا ہے۔ اس موضوع پر پوری بات جاننے کے لیے ژاک دریدا کی Of Grammatology کو محنت اور غور سے پڑھنا چاہیے۔ یہ اتنی اہم کتاب ہے کہ جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی وہ بہت کچھ پڑھنے کے باوجود بہت پڑھا لکھا نہیں ہے۔ دریدا معنی کو موجود ہی نہیں مانتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم کسی متن کے ساتھ اپنی موجودہ ذہنی یا نفسی ضروریات کے تحت ایک تعلق ساپیدا کر لیتے ہیں اور اس سے کچھ مطلوب معانی منسوب کردیتے ہیں۔ اس عمل سے دراصل ہم متن کا مطالبہ پورا کرتے ہیں اورپھر جب شعور کی ضرورت بدل جاتی ہے تو پھر وہی متن ہم سے کچھ اور معانی کا تقاضا کرتا ہے اوراس کو بھی ہم اسی طرح پورے وثوق سے قبول کرلیتے ہیں۔
دریدانے مطالعۂ متن کے فلسفے کو شروع نہیں کیا ہے بلکہ آخری حد تک پہنچادیا ہے۔ مابعد جدیدیت کے تناظرمیں اس تھیوری کا بانی رولاں بارتھ (Roland Barthes) تھا۔ اس کا مشہور فقرہ ہے، ’’تحریر خود کو لکھتی ہے، مصنف نہیں۔‘‘ یعنی تحریر ایک ڈسکورس ہے، مصنف اس کے وجود میں آنے کا صرف ایک سبب ہے۔ یہ ایسی بات ہے جسے صرف ادبی رنگ میں سمجھاجا سکتا ہے، منطقی رنگ میں نہیں۔ اس ڈسکورس کے وجود میں آنے کے دیگر اسباب اسے پڑھنے والے فراہم کریں گے۔ یعنی ایک تخلیق وجود میں آنے کے پہلے مرحلے سے اس وقت گزرتی ہے جب لکھنے والا اسے لکھتا ہے۔ دوسرا مرحلہ اس وقت طے ہوتا ہے جب پڑھنے والا اسے پڑھتا ہے اور معنی یابی اورمعنی رسانی کے تعامل سے اس کتاب کو سمجھنے کی سر گرمی شروع کرتا ہے۔ رولاں بارتھ کے نزدیک یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ تخلیق متن میں زیادہ بڑا کردار مصنف کا ہوتا ہے یا قاری کا۔ اسی بات کو دریدا نے التوائے معنی کا فلسفہ بنا دیا۔ کسی اظہار کا کوئی حتمی، واحد اورbinding مفہوم نہیں ہوسکتا کیونکہ متن صرف فہم کومخاطب نہیں کرتا بلکہ قاری کی معلوم یا نا معلوم خلّاقی کو ابھارتا ہے۔ رولاں بارتھ کا مطلب یہ تھا کہ کتاب کی تخلیق کا عمل اس کے طبع ہو جانے سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ پڑھے جانے سے اپنی تکمیل کاسامان کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی پوسٹ ماڈرنسٹ یہ نہیں مانتا کہ مصنف کا کوئی مقصد ہوتا ہے یا مصنف کوئی بات کہنا چاہتا ہے۔ مصنف کچھ کہنا نہیں چاہتا، وہ توبس ایک فعال وسیلۂ اظہار ہے۔ وہ خود اپنی تحریر کامطلب نہ بتا سکتا ہے نہ معین کر سکتا ہے اور نہ اسے اس کا حق ہے۔ تحریرمکمل ہوتے ہی مصنف کی حیثیت بھی قاری کی رہ جاتی ہے، اورمتن سے برآمد ہونے والی اقلیم معنی کی حکومت ہر قاری کو حاصل ہے، اس میں دوسرے سے کمک لینا بے معنی ہے۔
قاری کی آزادی کا نظریہ اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کو ٹھیٹھ طبیعی اور تجربی علوم پر بھی وارد کردیا گیا ہے۔ سائنسی نظریات یا ثابت شدہ اموراور تجربی و حسّی حدود کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سب ارادی ہیں۔ یعنی سائنس جو چیز جس انداز میں دریافت کرنا چاہتی ہے، اسی انداز میں دریافت کرلیتی ہے۔ معاشرے کو Organization کی طرح بنا دینے والی جدیدیت اس طرح کی چیزوں میں ایک جبری او رمفاد پرستانہ اتفاق کی فضا پیدا کر دیتی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگرکسی کے پاس سائنس کے طریقہ کار کو عمل میں لانے والے وسائل ہوں اور اگر اس کا ارادہ اور خواہش کچھ اور ہو توانھی چیزوں کو کچھ اور ثابت کیا جاسکتا ہے۔
اس کو پوسٹ ماڈرنسٹوں کی کامیابی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے چیزوں کیconceptual propertiesکو بدل دیا ہے۔ جس طرح اشیا ہمارے دماغ میں آتی ہیں، ان کے آنے کے مزاج کو تبدیل کر دیا ہے۔ چیزیں جس طرح ہمارے احساسات میں آتی ہیں، ان کے محسوس ہونے کے اُسلوب اور کیفیت کو بدل دیا ہے۔ ٹیری ایگلٹن جو خود ممتاز پوسٹ ماڈرنسٹ تھا، اسی سے بدک گیا۔ اس نے کہا یہ تو مجھے خود کشی پراکسا رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ میں پورے کا پورا خود کو مار کر پھردوبارہ ان کے ہاتھوں سے اپنی تعمیر نو قبول کر لوں۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی شایدمفید ہوگا کہ پوسٹ ماڈرنزم کوشروع سے آج تک میدان خالی نہیں ملا۔ ایسا نہیں ہے کہ نشاۃ ثانیہ کی طرح آئے اور چھا گئے۔ انھیں علم اور تہذیب کی بڑی بڑی قوتوں کی مخالفت کا سامنا رہا ہے مثلاآج کل ہیبرماس ہے جو خودکو ماڈرنسٹ اور مارکسسٹ کہتا ہے۔ دریدا کے ساتھ اس کی بحثیں معروف ہیں۔ یہ وہ آدمی ہے جس نے آج تک پوسٹ ماڈرنسٹوں کو یہ دعویٰ کرنے کی اجازت نہیں دی کہ وہ مغرب کے واحد نمائندے ہیں۔ وہ تو یہ کہتا ہے کہ ما بعدجدیدیت بھی دراصل جدیدیت ہی ہے جو اناڑی لوگوں کے ہاتھ میں آکر اس حال کو پہنچ گئی ہے۔
یہ بات اس لحاظ سے درست لگتی ہے کہ Enlightenment Project جو نشاۃ ثانیہ سے شروع ہو کر مختلف تہذیبی، مذہبی، سیاسی اور فکری تحریکوں میں سرایت کیے ہوئے بالآخر سرمایہ داری نظام اور جمہوریت پر منتج ہوا، ا س کی اندرونی بناوٹ اوراس کے وجود میں آنے کے اسباب ما بعدجدیدیت سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ جدیدیت کے مقاصد بھی اپنی منطق اور طریق کار میں مختلف ہونے کے باوجود بڑی حد تک ما بعدجدیدیت سے مشابہت رکھتے ہیں۔ جدیدیت اورما بعدجدیدیت میں ایک بنیادی فرق یقینا ہے۔۔۔ اور وہ یہ ہے کہ جدیدیت معروضیت (Objectivity) یا ایک طے شدہ معروضیت پر زور دیتی ہے جب کہ مابعدجدیدیت چیزوں کو ایک مجرد داخلیت میں سمو دیتی ہے۔ یہ داخلیت لگتا ہے کہ ایک کونیاتی یا وجودی اصول ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بھی یہ انسانی داخلیت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان اس اصول داخلیت کا ایک فعال مظہر ہے۔ اس فرق کا بھی اگر دورتک تجزیہ کیا جائے تو اس میں سے نکلتا کچھ نہیں ہے۔ جدیدیت کی معروضیت بھی کوئی خاص چیز نہیں ہے۔ اس کے ذریعے سے دنیا کو انسان مرکز بنایا جا سکتا ہے جو جدیدیت کامقصد ِاعلیٰ ہے۔ ورنہ اصل میں یہ بھی ایک طرح کی داخلیت ہی ہے جس کی بدولت انسان کا تصورِ شے نفسِ شے پر غالب آگیا بلکہ اس پر حاکم ہوگیا۔ لیکن بہرحال ما بعد جدیدیت کا یہ امتیاز ضرور ہے کہ اس نے جدیدیت کی اساس یعنی انسان مرکزی کو ہمیشہ کے لیے فراموش کرنے کاسامان پیدا کردیا اورچیزوں کو ان کی تعریفات (Definitions) کی زنجیروں سے آزاد کردیا۔ مابعد جدیدیت اس پہلو سے جدیدیت کی ناکامی کی سب سے بڑی دستاویز ہے۔ اس کی وجہ سے اہل جدیدیت کوان تمام نیم کلاسیکی عناصر سے لا تعلق ہونا پڑا جن کا جدیدیت کی تعمیر میں بڑا حصہ تھا۔ مثلاًکلیہ سازی، نظام بندی، تجربیت وغیرہ۔
اب اگر ہم اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق پوسٹ ماڈرنزم پر کوئی تنقید تیار کرنے چلیں تو میرے خیال میں سب سے پہلے ان کے تصور زبان کا جائزہ لینا ہوگا۔ اسی کے ضمن میں انسان کے شعور اور استعدادِ علم کے بارے میں ان کے نظریات کو بہت غور سے دیکھنا ہوگا۔ یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پوسٹ ماڈرنزم لا یعنیت (Absurdism) اورمنطقی ایجابیت (Logical Positivism) کا ملغوبہ ہے۔ اس پر کوئی جرح کا رگر نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ اس کے نظری حدود کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی اساسیات اور اس کے پیدا کردہ حالات و احوال کو رد کرنے کی قوت نہ حاصل ہو۔ یہ بالکل چھپکلی کی طرح ہے، اس کانظریہ اس کی دم ہے، جو کٹ بھی جائے تو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ خیر سے وہ تہذیبی قوت تو ہمارے پاس رہی نہیں جوmodern Condition Postکے انہدام کے لیے ضروری ہے، لہٰذا نظری، منطقی اورجمالیاتی نظریہ سازی شاید ہمیں اس کی زد میں پوری طرح آنے سے روک سکے۔
یہ جو کہتے ہیں کہ انسانی شعور میں کسی مستقل ادراک پر رہنے کی صلاحیت یا خاصیت یا میلان نہیں پایا جاتا، اس کو رد کرنے کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہوسکتی ہے کہ خود یہ اصول بھی انسانی شعور ہی کا Reflection ہے۔ یہ دعویٰ بھی انسانی شعور کی مستقل قبولیت کی صلاحیت پر دلالت کر رہا ہے۔ اپنے بارے میں شعور کا یہ فیصلہ کہ میں متغیر ہوں اورکسی ایک بات پر قایم نہیں رہ سکتا، خودشعوری کی اٹل بنیاد پر ہی تو ہے! اس میں جو گہرا مسئلہ ہے وہ خودشعوری ہے۔۔۔ شعور کی خود شعوری۔۔۔ اس سے خود یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ شعور کسی مستقل دعوے یا کسی absolute notion of knowledge کی قابلیت اور استعداد رکھتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعور کے مستقل مسلمات چاہے صورتاً سلبی ہوں، ماہیت میں ایجابی ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایجابی ماہیت کے بغیر شعور کسی اصول کو contain کر ہی نہیں سکتا۔ پوسٹ ماڈرنسٹوں کی غلطی یاشرارت یہ ہے کہ انھوں نے شعور کی واقعی فعلیت کو اس تصور کے تابع کر دیا جو یہ شعور کے بارے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہنا بڑی حد تک درست ہوگا کہ Enlighenment Project یعنی جدیدیت نے جس طرح abstract کو concrete بنایا، ما بعد جدیدیت اس رویے کو منقلب کرکے concrete کو abstract بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ چیزچونکہ تصورات کی منطق سے نسبت رکھنے کی بجائے اخلاقی آزادی کی تمنا سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا اس میں سے کلّیت اور دوام کا عنصر تکلف کے ساتھ خارج کر دیا گیا ہے۔ انسانی شعور کی خلقی اور فطری فعلیت کو حسبِ دلخواہ تجرید کے عمل میں صرف ہوتے ہوئے دکھانے کا بنیادی مقصد محض اتنا نہیں ہے کہ واقعیت کو تصور کے دیرینہ غلبے سے نکالا جائے۔۔۔ اس کا آخری ہدف یہ معلوم ہوتا ہے کہ شعور میں راسخ مذہبی تناظر کوختم کردیا جائے اور اس شعور کی بلاواسطہ یابالواسطہ اثراندازی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تہذیبی اور نفسیاتی اقدار کو بھی زندگی کے تمام دائروں سے نکال باہر کیا جائے۔ ما بعد جدیدیت پر فلسفیانہ یا جمالیاتی تنقید کارگر نہیں ہو سکتی کیونکہ فلسفیانہ اور جمالیاتی تصورات کی تشکیل قریب قریب پوری طرح لفظ اساس ہو چکی ہے، یعنی اب تصور و تخیل کی ساری کارکردگی بس یہ رہ گئی ہے کہ لفظ میں موجود یا لفظ میں ممکن معنوی ساختوں کو زیادہ سے زیادہ اعجوبگی سے برآمد کر دکھایا جائے اور شعور انسانی کی تمام ’’عادات‘‘ کو اس عمل کے زور سے توڑ دیا جائے۔
سامنے کی بات ہے کہ ہر تحریر کا ایک اُسلوب بھی ہوتا ہے جو مصنف کے فرق کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اگر تحریر آپ اپنی محرر ہے تو اُسلوب کو کس کے کھاتے میں ڈالا جائے گا؟ اسٹائل مصنف کے وجود پر گواہی دیتا ہے نہ کہ تحریر کے وجود پر۔ بظاہر یہ اعتراض فنی اور جمالیاتی ہے لیکن ما بعد جدیدیت اس اعتراض کی دھار کند کرکے اسے اپنا بنا لینے کی پوری مہارت اور گنجائش رکھتی ہے۔ اس لیے اس اعتراض کو شعور کی غیر جمالیاتی قوتوں کو بھی یکجا کرکے اٹھانا چاہیے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ آدمی کا جمالیاتی موقف بھی شعور کے غیر جمالیاتی مطالبات کو نظرانداز کرکے تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ مصنف یا منشائے متکلم بالکل غیر اہم چیز ہو تو ہماری اجتماعیت کی آخری بنیاد بھی گر جائے گی کیونکہ ہمیں باہم متعلق رکھنے والی کوئی بھی چیزموجود نہیں رہ جائے گی۔
یہی حال Meta Narrative کے انکار کا ہے۔ کچھ دیر پہلے تذکرہ آچکا ہے کہ موجودہ مغرب نے دراصل نٹشے کے غیر متوازن دماغ سے جنم لیا ہے۔ واقعی اتنا اثر انداز ہونے والا آدمی تاریخ فکر میں پیدا نہیں ہوا۔ Meta Narrative کے انکار کا تمام تر زور نٹشے ہی نے فراہم کیا ہے۔ اس نے جب خدا کی موت کا اعلان کیا تو دراصل وہ اعلان Meta Narrative کی موت کا تھا۔ نطشے کی بات تو خیرایک مجذوبانہ اور خطیبانہ تحکم کی بنیاد پر ایک خاص قسم کی تاثیر اورمعنویت رکھتی ہے لیکن پوسٹ ماڈرنسٹوں نے اسے جس طرح ایک ذہنی یا منطقی مسلمے کے طورپر پیش کیا ہے، وہ مضحکہ خیز ہے۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ Meta Narrative کے انکار کی زدمیں ہر Narrative کوآنا چاہیے کیونکہ اگر ایک چیزسادہ واقعاتی سطح پر اپنا وجود ثابت کر دے تو اس کی qualified existence چاہے رد بھی ہو جائے تو بھی اس چیز کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود Narrative کو ماننا اس بات کا ثبوت ہے کہ Meta Narrative کی موجودگی ناگزیز ہے۔ اس کی اصالت میں تعطل آ جانے سے شعور کی تمام سرگرمیاں باہم مربوط نہیں رہیں گی اورایک انتشار کا شکار ہوجائیں گی۔
پھرپوسٹ ماڈرنسٹوں کا یہ اصرار کہ لفظ اورشے میں یا لفظ اوراس کے معنی میں کوئی ذاتی رشتہ نہیں ہے۔ یعنی ’’معنی‘‘ لفظ کی essential property نہیں ہے۔ معنی تو ہم دیتے ہیں۔ اس پر ایک اعتراض یہ ہے کہ معنی دینے کا عمل بھی لفظ ہی کرتے ہیں کیونکہ انسان کوئی ایسی بات نہیں سوچ سکتا جو لفظ میں نہ ہو۔ ہمارے اندر کوئی ایسا احساس اور خیال موجود نہیں جو ملفوظ نہ ہو۔ لفظوں کو معنی بھی وہی دیے جاتے ہیں جو لفظ میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، ملکات کی طرح۔۔۔ لفظ میں معانی واقعات کی طرح بھی ہوتے ہیں اورملکات کی طرح بھی۔۔۔ ہمارا انسانی شعور ابھی اتنا پختہ نہیں ہے کہ ہم اپنی زبان کو تجزیے کی اس سطح تک لے جا سکیں۔ ہمارے یہاں تھیوری کے نام پر جو کچھ موجود ہے اسی سے ظاہر ہے کہ ہم بڑے مسائل اور معاملات میں صرف شامل باجا کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ بہرحال پوسٹ ماڈرنزم مکمل انار کی ہے۔ کاش ہم دیکھ سکتے کہ یہ انارکی ہم پر کن پہلوئوں سے اثر انداز ہو سکتی ہے اور ہماری کن قدروں کو متاثر کرسکتی ہے۔