لو کے موسم میں بہاروں کی ہوا مانگتے ہیں

لو کے موسم میں بہاروں کی ہوا مانگتے ہیں
ہم کف دست خزاں پر بھی حنا مانگتے ہیں


ہم نشیں سادہ دلی ہائے تمنا مت پوچھ
بے وفاؤں سے وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں


کاش کر لیتے کبھی کعبۂ دل کا بھی طواف
وہ جو پتھر کے مکانوں سے خدا مانگتے ہیں


جس میں ہو سطوت شاہین کی پرواز کا رنگ
لب شاعر سے وہ بلبل کی نوا مانگتے ہیں


تاکہ دنیا پہ کھلے ان کا فریب انصاف
بے خطا ہو کے خطاؤں کی سزا مانگتے ہیں


تیرگی جتنی بڑھے حسن ہو افزوں تیرا
کہکشاں مانگ میں ماتھے پہ ضیا مانگتے ہیں


یہ ہے وارفتگئ شوق کا عالم سردارؔ
بارش سنگ ہے اور باد صبا مانگتے ہیں