لطف کیا ہے بے خودی کا جب مزا جاتا رہا
لطف کیا ہے بے خودی کا جب مزا جاتا رہا
یوں نہ مانوں میں مگر ساغر تو سمجھاتا رہا
طاق سے مینا اتارا پاؤں میں لغزش ہوئی
کی نہ ساقی سے برابر آنکھ شرماتا رہا
مجھ سا ہو مضبوط دل تب مے کشی کا نام لے
محتسب دیکھا کیا مجبور جھلاتا رہا
کیا کروں اور کس طرح اس بے قراری کا علاج
یار کے کوچے میں بھی تو دل کا بہلاتا رہا
نوجواں قاتل کو اچھی دل لگی ہاتھ آ گئی
جب تلک کچھ دم رہا بسمل کو ٹھکراتا رہا
شادؔ وقت نزع تھا خاموش لیکن دیر تک
نام رہ رہ کر کسی کا زیر لب آتا رہا