لڑھکتا پتھر
روشنی ڈوب گئی چاند نے منہ ڈھانپ لیا
اب کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی مجھ کو
میرے احساس میں کہرام مچا ہے لیکن
کوئی آواز سنائی نہیں دیتی مجھ کو
رات کے ہاتھ نے کرنوں کا گلا گھونٹ دیا
جیسے ہو جائے زمیں بوس شوالہ کوئی
یہ گھٹا ٹوپ اندھیرا یہ گھنا سناٹا
اب کوئی گیت ہے باقی نہ اجالا کوئی
جس نے چھپ چھپ کے جلایا مری امیدوں کو
وہ سلگتی ہوئی ٹھنڈک مرے گھر تک پہنچی
دیکھتے دیکھتے سیلاب ہوس پھیل گیا
موج پایاب ابھر کر مرے سر تک پہنچی
مرے تاریک گھروندے کو اداسی دے کر
مسکراتے ہیں دریچوں میں اشارے کیا کیا
اف یہ امید کا مدفن یہ محبت کا مزار
اس میں دیکھے ہیں تباہی کے نظارے کیا کیا
جس نے آنکھوں میں ستارے سے کبھی گھولے تھے
آج احساس پہ کاجل سا بکھیرا اس نے
جس نے خود آ کے ٹٹولا تھا مرے سینے کو
لے لیا غیر کے پہلو میں بسیرا اس نے
وہ تلون کہ نہیں جس کا ٹھکانہ کوئی
اس کے انداز کہن آج نئے طور کے ہیں
وہی بے باک اشارے وہی بھڑکے ہوئے گیت
کل مرے ہاتھ بکے آج کسی اور کے ہیں
وہ مہکتا سا چہکتا سا ابلتا سینہ
اس کی میعاد ہے دو روز لپٹنے کے لیے
زلف بکھری ہوئی بکھری تو نہیں رہ سکتی
پھیلتا ہے کوئی سایہ تو سمٹنے کے لیے