لکھنؤ اور اردو ادب
ہر دور کا ادب اس دور کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے، لکھنؤ کو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک شمالی ہند کی تہذیب میں ایک نمایاں درجہ حاصل رہا ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دہلی کی مرکزی حیثیت کمزور ہو گئی مگر اس کے باوجود اس مرکز میں ایک تہذیبی شمع جلتی رہی۔ یہ شمع اور جلتی مگر سیاسی حالات نے ایک اور مرکز پیدا کر دیا اور بعض اقتصادی مجبوریوں نے شعر و ادب کے پروانوں کو لکھنؤ کی نئی ادبی انجمن میں پہنچا دیا۔ سوداؔ اور میرؔ جانا نہ چاہتے تھے مگر انھیں جانا پرا۔ دردؔ کی درویشی نے انھیں ایک ہی آستانے پر جبہ سائی سکھائی مگر دوسرے شعرا کیا کرتے۔ قدر دانی، تحسین، ادبی سرپرستی اور خوشحالی کی کشش بالآخر انھیں بہا لے گئی۔ اس طرح دہلی کی خزاں سے لکھنؤ کی بہار آراستہ ہوئی۔
دہلی اور لکھنؤ میں بہت فرق تھا۔ دہلی میں اردو شاعری محض دربار کی رونق نہیں تھی۔ اسے ایک زمین، بنیاد اور فضا حاصل تھی۔ دہلی کا حلقہ لسانی اعتبار سے کھڑی بولی کا حلقہ تھا۔ اردو زبان کھڑی بولی کی ترقی یافتہ شکل تھی۔ اردو شاعری نے فارسی کا تتبع کیا تھا مگر زبان کی بنیادی خصوصیات کو باقی رکھا تھا۔ دہلی کا شاعر، جس تہذیب کا آئینہ دار تھا، اس میں ایک عوامی رنگ بھی تھا۔ تصوف اس تہذیب کے خمیر میں تھا مگر یہ ہندوستانی تصوف تھا۔ ا سے مغل تہذیب کی شاندار خصوصیات ورثے میں ملی تھیں۔ اس کی فارسی ہندوستانی تھی۔ یہ ہندی کی ایہام گوئی سے بہت متاثر تھی۔
مظہرؔ کی فارسیت کو قبول کرنے کے باوجود میرؔ اور سوداؔ کی شاعری اپنی تہذیبی بنیادوں سے بیگانہ نہیں ہے۔ یہ جامع مسجد کی سیڑھیوں اور اس کے محاورےکو نظر انداز نہیں کرتی۔ اس میں شہریت ہے مگر یہ شہریت رئیسانہ شان نہیں رکھتی۔ اس کا جذبہ سچا اور سادا ہے۔ اس کا عشق فطری اورنیچرل ہے۔ اس کی ناکامی اور محرومی میں درد و خستگی ہے۔ تلخی و مردم بیزاری نہیں۔ اس کی شاعری سرپرستی سے فائدہ اٹھاتی ہے مگر سرپرستی کی مرہون منت نہیں ہے، اس کا آب و رنگ خونِ جگر کی سرخی رکھتا ہے اور یہ خونِ جگر محبوب کے حسن سے کم رعنائی نہیں رکھتا۔ اس کی صنعت اسے فطرت سے بہت دور نہیں لے جاتی۔
میرؔ کی عشقیہ شاعری محض عشقیہ شاعری نہیں ہے اور اسی لیے بڑی شاعری ہے۔ سوداؔ کے ہجویات اس کے قصیدوں سے زیادہ اہم ہیں۔ ان میں ایک سماجی احساس ملتا ہے جو ہمارے ادب کی بہت بڑی دولت ہے۔ اس شاعری کی اپیل محدود نہیں، وسیع ہے، اس کا فنی شعور جامد نہیں سیال ہے، یہ لفظ کا پرستار نہیں جذبے کا پرستار ہے، اس جذبے میں ماتمیت سی ہے مگر یہ ماتم چونکہ اپنی انجمن کے درہم برہم ہونے، اپنی بساط کے الٹنے اور اپنے نگر کے لٹنے کا ماتم ہے، اس لیے واقعیت اور عظمت رکھتا ہے۔
لکھنؤ آکر یہ کیفیت بدل گئی۔ دربار کی سرپرستی، ایک محدود طبقے کی خوشحالی، شعراء کی قدر و منزلت اور فنونِ لطیفہ کی مقبولیت نے لوگوں کو فریب میں مبتلا کر دیا۔ زمانے کی رفتار پر ان کی نظر نہ رہی۔ تاریخی حقائق کا احساس کم ہوتا گیا۔ اس بدلی ہوئی ذہنیت نے مصحفیؔ، انشاؔ اور جرأت کےرنگ کو بدل دیا اور ناسخؔ و آتشؔ کی شاعری کو رواج دیا۔ لکھنؤ نے دہلی کے تعلق کو ایک زنجیر سمجھا اور اس زنجیر کو توڑ کر اپنےآپ کو حقیقت سے علاحدہ کر کے مکمل فریب میں مبتلا کر دیا۔ اسی وجہ سے لکھنؤ کا ادب دہلی کی ادبی روایت سے الگ ہوگیا اور اس نے اپنی روایات، اپنے فنی اصول اور اپنے معیار جدا مقرر کیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ادبی خود مختاری جو اس زمانے میں چاہے کتنی ہی فطری معلوم ہوتی ہو، صحیح تھی یا غلط اور اس خود مختاری کا اردو ادب کی عام رفتار پر کیا اثر ہوا۔
لکھنؤ کے گرد جو زبان بولی جاتی تھی، وہ کھڑی بولی نہیں تھی بلکہ اودھی تھی، لکھنؤ کے حکمرانوں اور ان کے اثر سے اونچے طبقے میں فارسی اور پھر اردو کا رواج ہوا۔ اردو کو شہر میں ایک مرکز مل گیا مگر اس شہریت میں جو تہذیب پروان چڑھی، وہ روز بروز پرتکلف، مصنوعی اور محدود ہوتی گئی۔ اس تہذیب نے لکھنؤ کی شاعری کو بھی اسی رنگ میں رنگ دیا۔
تہذیب کیا ہے؟ یہ محض شائستگی، نزاکت، لطافت، تکلف اور تصنع کا نام نہیں، اس میں ایک انسانی اور سماجی تصور ضروری ہے۔ ہر تہذیب میں ایک فارغ البال طبقہ ہوتا ہے جو اس کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اشاعت بھی۔ یہ طبقہ مالی پریشانیوں سے بے نیاز ہوتا ہے مگر اس کا ایک اقتصادی نظام بھی ہوتا ہے۔ جاگیرداری کے زمانہ میں تہذیبی قدریں دربار سے، یا کسی نہ کسی امیر یا رئیس سے وابستہ تھیں۔ امیر یا رئیس جب قصبوں یا دیہات میں ہوتا تھا تو اس کی دنیا میں فطرت، عوام اور زندگی کے بعض مسائل آہی جاتے تھے۔ دربار میں پہنچ کر وہ اس سےمحروم ہو جاتا تھا۔ اس لیے دربار کا ادب اس پچھلے ادب کے مقابلے میں زیادہ پر تکلف اور رنگین اور اسی اعتبار سےمصنوعی ہونے لگتا تھا۔
اردو شاعری دہلی میں دراصل دربار کی دنیا میں محدود نہیں تھی۔ دربار کی قوت ضعیف ہو چکی تھی۔ شعراء امیروں اور رئیسوں کی تلاش میں ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ ان شاعروں کا مزاج درباری مزاج نہیں ہوتا تھا۔ لکھنؤ میں جو تہذیبی بساط بنی وہ درباری بساط تھی۔ اسے جو قدریں ملیں وہ دربار سے ملیں۔ آصف الدولہ نے جب تک اسے پایۂ تخت نہ بنایا تھا لکھنؤ کی کوئی تاریخی حیثیت نہ تھی۔ صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے فیض آباد کو چار چاند لگا دیے مگر آصف الدولہ کے ساتھ یہ رونق لکھنؤ میں منتقل ہو گئی۔ لکھنؤ کو تقریباً سو سال تک مرکزیت حاصل رہی اور اس مدت میں ’’شمشیر و سناں‘‘ سے طاؤس و رباب‘‘ تک کے سارے مراحل طے ہو گئے۔
یہ ایک دلچسپ بات کہ لکھنؤ کی شاعری میں درویشی کی روایات جنھیں مصحفیؔ شاعری کے لیے لازمی سمجھتے تھے، بہت ضعیف رہیں۔ صرف آتشؔ کے یہاں اس کی آن بان ملتی ہے۔ تصوف بھی اس سرزمین میں پھل پھول نہ سکا۔ علمی رنگ اور حکیمانہ نظر کو بھی یہاں زیادہ ترقی نہ ہوئی۔ ایک مذہبی جذبہ ضرور تھا لیکن اس جذبے میں رسمی انداز زیادہ تھا۔ اس کی مذہبی شاعری میں بھی گہرا مذہبی احساس خال خال ملتا ہے۔ زیادہ تر مذہبی رسوم کا ذکر ہے، جہاں سچا احساس ہے، مثلاً محسنؔ کی گہری عقیدت میں، وہاں بھی اس کے لیے صنایع بدایع سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
دہلی کے میر امن جب باغ و بہار لکھتے ہیں تو اگرچہ خیالی دنیا کی تصویروں سے اپنی دکان سجاتے ہیں مگر جابجا جزئیات و واقعات کے آب و رنگ سے تصور کو دل کش بنا دیتے ہیں۔ لکھنؤ کے قصہ گو عبارت آرائی اور رنگین بیانی سے مسحور کرنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ لکھنؤ کا ادب، بہت جلد دہلی کی روایات کو چھوڑ دیتا ہے۔ میرؔ کی عشقیہ شاعری، جرأت کی معاملہ بندی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مصحفیؔ جو میرؔ کے بڑے اچھے پیرو تھے، انشاؔء اور جرأتؔ کی مقبولیت کو دیکھ کر ان کےساتھ رسوا ہوتے ہیں۔ عشق میں لذتیت، ہوس پرستی اور کامرانی کے جذبات آ جاتے ہیں۔ ریختی ایجاد ہوتی ہے۔ ناسخؔ جیسے ثقہ لوگ جب زبان کی حفاظت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو زبان کو فارسی کی لونڈی بنا دیتے ہیں۔ عوام سے ہمارا سارا رشتہ قطع کر دیتے ہیں۔ چن چن کر ہندی کے الفاظ نکالتے ہیں۔ وہ شعریت کی پرستش کے بجائے فن کی پرستش کا آغاز کرتے ہیں۔
قاعدہ ہے کہ جب تہذیب کا دائرہ چھوٹا ہو جائےگا اور فطرت، عوام یا تاریخی حقایق سے لوگ بے نیاز ہونے لگیں گے تو یا تو فن کو بت بناکر لوگ پرستش کرنے لگیں گے یا اعصاب پر عورت کی حکمرانی ہوگی۔ لکھنؤ میں یہ دونوں باتیں ہوئیں۔ ناسخ کی سنجیدگی، ان کی ادبی آمریت، ان کا زبان اور فن پر عبور، ضبط و نظم کی یہ خواہش اور ضبط و نظم پر یہ اصرار، بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو ناسخؔ کی شاعری میں کوئی گہرا جذبہ، کوئی بلند تصور، کوئی والہانہ احساس نہیں ہے۔ وہ شاعر نہیں استاد ہیں اور ان کی استادی سے بھی زبان کو فائدہ کم پہنچا، نقصان زیادہ ہوا۔
آزادؔ اور حالیؔ دونوں نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا۔ دونوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ناسخؔ قدرتی پھولوں کے بجائے کاغذی پھولوں سے اپنی دکان سجاتے ہیں۔ ناسخؔ نے جہاں اپنے پر فخر کیا ہے وہاں جذبۂ احساس، تاثیر، جادو پر نہیں، مضمون آفرینی، شوکتِ الفاظ، قدرتِ بیان پر۔ وہ غزل کے شاعر ہیں اور سوداؔ کے پیرو، حالانکہ غزل کی اصلی روایت میرؔ کی ہے۔ میرؔ کو وہ خراج تحسین ادا کرتے ہیں مگر میرؔ کی پیروی ضروری نہیں سمجھتے۔
کب ہماری فکر سے ہوتا ہے سوداؔ کا جواب
ہاں تتبع کرتے ہیں ناسخ ہم اس مغفور کا
پہلے اپنے عہد سے افسوس سوداؔ اٹھ گیا
کس سے مانگیں جا کے ناسخؔ اس غزل کی داد ہم
طمع ہے انصافِ دوستاں سے کہ اتنا فرمائیں سب زباں سے
کیاہے ناسخؔ نے آسماں سے بلند تر رتبہ اس زمیں کا
ناسخؔ کو خوش قسمتی سے زمانہ بہت اچھا ملاتھا۔ اس عہد میں شاعری کی بڑی قدر و منزلت تھی، لکھنؤ کا کاروبار اپنی عظمت اسی میں سمجھتا تھا کہ شاعری جیسے فن کی سرپرستی کرے، شاعر ہونا ایک خوبی تھی اور تہذیب کی نشانی، اسی ہوا میں شاعری مقبول ہوئی۔ شاعروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مشاعروں کی کثرت ہوئی، فن کی نمایش ہونے لگی مگر شعر و ادب ایسے کافر ہیں کہ محض قدر و منزلت سے ترقی نہیں کرتے، بلکہ بعض انسانی قدروں کی وجہ سے جب ادب کو محض ادب کی خاطر پسند کیا گیا ہے وہ ادب بڑا ادب نہیں رہا۔ جیسا کہ ایلیٹؔ نے کہا ہے کہ ’’اگرچہ ادب کے پرکھنے کے لیے ادبی معیار ضروری ہیں، مگر صرف ادبی معیار کافی نہیں۔ اس ادب میں بعض انسانی اور سماجی قدروں کا احساس ضروری ہے۔‘‘
ناسخؔ کے اثر سے جو شاعری مقبول ہوئی، اس میں سماجی احساس بہت سطحی اور انسانی قدروں کا شعور بہت ناقص ہے۔ اس کا اخلاق در اصل ایک بے روح اور خشک اخلاق ہے جس میں نہ گرمی ہے نہ روشنی۔ اس کی فکر معمولی ہے۔ اس کی کاوش زیادہ تر فن یا الفاظ پر صرف ہوتی ہے۔ فن میں بھی جس چیز کو حسن سمجھا گیا ہے وہ حسن نہیں تکلف یا آورد ہے۔ فصاحت و بلاغت کا معیار، صنعتوں کا التزام، تشبیہات و استعارات کا ذوق، دراصل اس عورت کی یاد دلاتا ہے جو زیور کی شوقین ہے، اپنا حسن کم رکھتی ہے۔
غالبؔ کو آتشؔ کے یہاں بیش تر اور ناسخؔ کے یہاں کم تر نشتر ملے تھے۔ وہ دہلی کے مضمون اور لکھنؤ کی زبان کو مستند سمجھتے تھے، حالانکہ دونوں جگہ غالبؔ نے مروت سے کام لیا ہے۔ ناسخ کی شاعری میں نشتریت سرے سے نہیں۔ وہ جس طرح باقاعدہ ورزش کرتے ہیں، اسی طرح باقاعدہ ڈھلے ڈھلائے شعر کہتے ہیں۔ ناسخؔ خود دار انسان تھے۔ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو ذلیل نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے شاعری اور شعراء دونوں کی سوسائٹی میں عزت بڑھی مگر شاعر وہ معمولی تھے۔ آتشؔ کے یہاں جذبہ بھی ہے، گرمی بھی ہے اور گدازبھی۔ وہ دربار سے اس طرح متعلق نہیں تھے جس طرح ناسخؔ تھے، اسی نسبت سے وہ شعریت سے قریب تھے، مگر انھوں نے بھی شاعری کو نگوں کا جڑنا سمجھا اور شاعر کو مرصع ساز قرار دیا۔
شاعری میں مضمون اور زبان دونوں کی الگ الگ حیثیت نہیں ہے۔ اچھی شاعری میں مضمون اور زبان دونوں سے مدد ملتی ہے مگر صرف ایک پر شاعری کا انحصار نہیں ہے۔۔۔ ناسخؔ کے اثر سے زبان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی، وہ بھی زندہ احساس سے تھرتھراتی ہوئی، تازہ بول چال کو نہیں، بلکہ پرتکلف، رئیسانہ، مصنوعی، مہذب زبان کو۔ ناسخؔ کی شخصیت میں جو آمریت ملتی ہے، اس کی وجہ سے انھیں اپنے اصول کے منوانے میں آسانی ہوئی۔ یہ اصول وہ اس وجہ سے منوا سکے کہ ان کا حلقہ دربار کے ذریعے سے فارغ البالی حاصل کرتا تھا اور اس کا مرہون منت تھا اور دربار کو قائم رکھنے یا اسے خوش رکھنے کے لیے عوام اور دربار کے درمیان تہذیبی خلیج کو پاٹنے کے بجائے اسے ویسا ہی رکھنا چاہتا تھا۔
غالبؔ جب کہتے ہیں کہ دہلی کا مضمون مستند ہے تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دہلی کی شاعری گہرا فکری سرمایہ رکھتی ہے۔ یہ گہرائی اسے بعض سماجی حقایق سے ملی ہے، اور اس گہرائی میں جانے کے لیے اس نے اپنا رشتہ خاصی وسیع دنیا سے رکھا ہے، لکھنؤ کی زبان یقیناً دہلی کی زبان سے زیادہ شائستہ، مہذب اور نرم و نازک ہے مگر یہ شائستگی، تہذیب اور نزاکت ایک بڑی قیمت پر حاصل کی گئی ہے اور بہت مہنگی پڑی ہے۔ اس نے غزل میں حسن کی مصوری کو لباس اور آرایش کی فہرست بنا دیا ہے۔ اس نے رعایت کی پٹری سے شاعری کو کبھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیا۔ اس نے جو ہمواری حاصل کی اس میں اکتا دینے والی یکسانیت آ گئی۔ اس نے تشبیہ کو مقصود بالذات سمجھا اور ہر بات کو کسی اور پردے میں بیان کیا۔ یہاں تک کہ حسن یار کے بجائے پردہ حسن بن گیا۔ اس نے یونانی تنقید کے اس اصول کو کہ تشبیہ کلام کا زیور ہے، برتا، مگر تشبیہ کی روح تک نہیں گئی۔
ناسخؔ کی تشبیہیں مرعوب کن ہیں یا چست، مگر ان میں جادو نہیں ہے اور وہ ایک اسلوب کی شہید ہیں۔ غالبؔ کی تشبیہوں کی مثال سے یہ بات واضح ہو جائےگی۔ غالبؔ کے یہاں تشبیہات ایک نئی کیفیت، اپنے اسلوب فکر یعنی ایک نئی زبان کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ وہ شیکسپیئر کی ذہنی پرچھائیوں کا لباس ہیں کہ دیکھنے والا لباس پر رک نہیں جاتا، وہ ایک موزوں پیکر کو دیکھتا ہے۔ ناسخؔ کے اثر سے عام طور پر لباس بہت کچھ ہو گیا۔ شاعری قافیہ پیمائی ہوگئی۔ معنی آفرینی نہیں رہی۔ پیترا سب کچھ ہو گیا۔
ناسخؔ کے متعلق اس قدر تفصیل اس لیے ضروری ہے کہ ناسخؔ لکھنؤ اسکول کی ادبی قدروں کے خالق اور لکھنؤ کی ادبی شعریت کے نافذ کرنے والے ہیں۔ ناسخؔ لکھنؤ کی خود مختاری کا اعلان کرتے ہیں۔ آتش اس کے مقابلے میں مصحفیؔ کے اثر سے بالکل آزاد نہیں ہو سکے اور میرؔ حسن کا خاندان بھی اس وجہ سے لکھنؤ کے ادبی رنگ کو پوری طرح جذب نہیں کر سکا۔ یہی وجہ ہے کہ میر حسنؔ اور انیسؔ کے یہاں دہلی اور لکھنؤ دونوں کے اثرات ملتے ہیں۔
انیسؔ کی عظمت کا راز یہ ہے کہ انھوں نے لکھنؤ کی خودمختاری کو کبھی پوری طرح نہ مانا اور اپنے خاندان کے بعض محاوروں کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ ناسخؔ کے یہاں لکھنؤ کی پہلی ادبی شخصیت ملتی ہے، ان کی وجہ سے لکھنؤ کی غزل حقیقی تغزل سے دور ہوتی گئی۔ میرؔ کی عظمت کو مانتے ہوئے میرؔ کونظرانداز کرتی گئی۔ مختصر ہونے کے بجائے طویل بن گئی اور قافیہ پیمائی کو زیادہ ضروری سمجھتی گئی۔ وزیرؔ، بحرؔ، مہرؔ، امانتؔ، امیرؔ کے یہاں یہ سامان آرایش ہے اور رند وتعشق (جو ناسخؔ کے شاگرد تھے) شوقؔ اور صباؔ کی چنگاریوں کے باوجود اس میں خس و خاشاک زیادہ ہے، لیکن مرثیے اور مثنوی میں اس نے جو اضافے کیے ہیں ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ناسخؔ کے بعد لکھنؤ کی دوسری بڑی شخصیت انیسؔ کی ہے۔ گو اردو شاعری میں انیسؔ کا درجہ ناسخؔ تو کیا بڑے بڑے شاعروں میں بھی بہت بڑا ہے۔ لکھنؤ کی تہذیب کا تکلف ناسخؔ کے یہاں اور اس کی مذہبیت انیسؔ کے یہاں اور اس کا لوچ اور اس کی نزاکت شوقؔ لکھنوی کے یہاں ہے۔ انیسؔ نےمرثیے میں کوئی ایجاد نہیں کی۔ انھوں نے مرثیے کی مقبولیت سے فائدہ اٹھایا اور اس کی صنف میں اپنا سارا ادبی شعور صرف کر دیا۔ مرثیہ سوداؔ کے وقت تک زیادہ تر بین کے لیے تھا۔ اس میں ادبی رنگ سوداؔ کے وقت سے ملتا ہے اور ضمیرؔ سے اس کا وہ سانچہ بنتا ہے جو انیسؔ تک پہنچا۔ ضمیرؔ اور فصیحؔ کے مرثیے کو دیکھیے تو دونوں کا فرق واضح ہو جائےگا۔ ضمیرؔ نے بظاہر مرثیے میں اضافے کیے مگر غور سے دیکھیے تو مرثیت کو ختم کر کے اس سے ایک مجلسی اور تہذیبی کام لیا۔ انھوں نے قصیدے کی تشبیب سے سراپا اور مدح کے مضامین سے گھوڑے اور تلوار کی تعریف کی۔ انھوں نے مرثیے کو شہدائے کربلا کے مصائب کے بیان سے زیادہ ایک رزمیہ بنا دیا جو دبیرؔ کے یہاں پہنچتے پہنچتے آتشؔ کے الفاظ میں لندھور بن سعد ان کی داستان بن گیا۔
لکھنؤ کی سوسائٹی اپنے ہیرو، اپنے تاریخی کارنامے، اپنے افسانہ و افسوں نہ رکھتی تھی۔ یہ چیز اسے ماضی میں اور وہ بھی مذہبی قصوں میں مل گئی۔ لکھنؤ کے مذہبی ماحول کے لیے مرثیہ بہت سازگار ثابت ہوا مگر جیسا کہ حالی نے مقدمۂ شعر و شاعری میں کہا ہے،
’’مرثیے میں رزم و بزم اور فخر وخود ستائی اور سراپا وغیرہ کو داخل کرنا، لمبی لمبی تمہیدیں اور تورے باندھنے، گھوڑے اور تلواروں وغیرہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں کرنی اور شاعرانہ ہنر دکھانے، مرثیہ کے موضوع کے بالکل خلاف ہیں اور بعینہ ایسی بات ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ یا بھائی کے مرنے پر اظہار حزن و ملال کے لیے سوچ سوچ کر رنگین اور مسجع فقرے انشا کرے اور بجائے حزن و ملال کے اپنی فصاحت و بلاغت کا اظہار کرے۔‘‘ چنانچہ ضمیرؔ کے بعد سے مرثیہ محض شہدائے کربلا کے مصائب کی داستان نہیں رہا بلکہ لکھنؤ کی شاعری کی تمام خصوصیات اس میں جمع ہو گئیں۔ اس میں نہ صرف قصیدے کی مضمون آفرینی اور نازک خیالی ہےاور مثنوی کا بیانیہ رنگ اور واقعہ نگاری، بلکہ اس میں غزل کا انداز بھی ہے۔
انیسؔ کے یہاں تلوار محض تلوار نہیں معشوق ہے۔ گھوڑے میں بھی شان محبوبی ہے اور غزل کا ذوق اس طرح مرثیہ میں بھی اپنے لیے میدان تلاش کر لیتا ہے۔ مرثیے کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بعض لوگوں نے المیہ اور رزمیہ کے اعلیٰ معیاروں سے جانچا ہے۔ اس بحث میں پڑنے کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف اس بات پر زور دینا ہے کہ مرثیہ انیسؔ کے دور میں نظم بن گیا ہے اور مرثیہ کی مجلس ایک ادبی مجلس۔ مرثیہ گو بھی دوسرے شعرا کی طرح اپنے فن پر ناز کرتا ہے۔ وہ رزم و بزم دونوں کا کمال دکھانا چاہتا ہے۔ انیسؔ جانتے ہیں مگر کہتے ہیں،
بزم کا رنگ جدا، رزم کا میداں ہے جدا
یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا
فہم کامل ہو تو ہر نامہ کا عنواں ہے جدا
مختصر پڑھ کے رلا دینے کا ساماں ہے جدا
دبدبہ بھی ہو، مصائب بھی ہوں تو صیف بھی ہو
دل بھی محظوظ ہوں رقت بھی ہو تعریف بھی ہو
یعنی ایک تو مرثیہ کا مذہبی فریضہ ہے یعنی شہدائے کربلا کے مصائب پر اظہار غم اور ان کی یاد تازہ کر کے ثواب حاصل کرنا، دوسرا فریضہ ادبی ہے یعنی سراپا نظم کر کے، گھوڑے، تلوار کے مضمون کو نبھا کر، گرمی کی شدت کے لیے یا صبح کے منظر کے لیے مناسب تشبیہات استعمال کرکے سننے والوں کو محظوظ کرنا۔ لکھنؤ کا مرثیہ گو شروع سے اس دوسرے فرض کو بھی انجام دیتا آیا ہے۔ چونکہ اس میں تعمیری صلاحیت نہیں ہے، اس لیے وہ پورے ڈرامے کا بہ یک وقت تصور مشکل سے کر سکتا ہے۔ زیادہ تر وہ ایک ہی واقعہ کو لیتا ہے یا ایک کردار، یا ایک موقع کو، وہ ہر چیز کے مخصوص عنوان بنا لیتا ہے۔ رزمیہ کے معنی اس کے نزدیک لڑائی کے نہیں، گھوڑے اور تلوار کی تعریف کے ہیں۔ مناظر فطرت میں صبح کا سماں اور گرمی کی شدت کا بیان ہے اور چونکہ ان میں سے کسی چیز کو شاعر نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا بلکہ تخیل اور عقیدے کی مدد سے خلق کیا ہے، اس لیے کہیں وہ زندہ نہیں ہے۔ نظر فریب ضرور ہے۔
انیسؔ سے پہلے مرثیے کی دنیا ایک طور پر ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کی دنیا تھی۔ اس کا مقصد بعض خیالوں اور خوابوں کی مدد سے حال کی زندگی کو بھلانا تھا اور ماضی کی عظمت میں شریک ہو کر حال کی پستی کے احساس کو کم کرنا تھا۔ ان میں ان اخلاقی قدروں کی پرستش کرکے جو امام کی شخصیت میں ملتی ہیں، ان قدروں کو طاق پر رکھ دینا تھا۔ غزل اس دور کو بہلاتی تھی، مرثیہ اسے بھلا دیتا تھا مگر عجیب اتفاق یہ ہوا ہے کہ انیسؔ کی شخصیت میں مرثیہ کو ایک حقیقی شاعر مل گیا جس نے مرثیہ کی فوقِ فطری فضا کو بدل کر اس میں انسانوں کے جذبات کی دھڑکن پیش کی اور جذبات کے بیان میں اپنے گرد و پیش کے رنگ سے کام لے کر اسے زندہ کر دیا۔ انیسؔ کے مرثیوں میں نام، کردار، واقعات عربی ہیں مگر جذبات عام انسانی جذبات ہیں، جو لکھنؤ کی زبان یا لب و لہجہ میں پیش کیے گئے ہیں۔ بہ ظاہر انیسؔ نے یہاں واقعیت کا خون کیا ہے مگر غور سے دیکھیے تو ایک اور واقعیت برتی ہے۔
انیسؔ کے مرثیے محض کربلا کے سانحے کا شاعرانہ بیان نہیں ہیں۔ ان کی تاریخی حیثیت پر اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر شاعر یہاں مؤرخ نہیں داستان گو ہے۔ اس نے لکھنؤ کی سوسائٹی کے سامنے ایک خیالی منظر پیش کیا ہے مگر اس منظر میں اس سوسائٹی کی تہذیب جا بہ جا جھلکتی ہے۔ میں اس لکھنوی رنگ کو انیسؔ کی خامی نہیں سمجھتا۔ انھوں نے اپنے تخیل کی وجہ سے صدیوں پہلے کے واقعے کو اس طرح زندہ کردیا اور اپنے مرثیوں میں محفوظ کر دیا کہ اس کی آب و تاب کو وقت کبھی ماند نہیں کر سکےگا۔
ان کا کمال ہے کہ انھوں نے مرثیہ کو زندگی دو طرح عطا کی۔ اول تو کربلا کے ڈرامے میں حصہ لینے والوں کو انسانوں کے جذبات عطا کر کے، دوسرے اس کے پس منظر میں اپنے گرد و پیش کی معاشرت اور وضع کے نقوش بھر کر۔ انیسؔ کی جذبات نگاری کا کمال میدان جنگ میں بہادروں کے جوش و خروش میں نہیں، باپ بیٹی کی محبت، ماں کی مامتا، بہن کی بھائی سے عقیدت، بھائی کی وفاداری کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ان کی عام انسانی عظمت کا قائل ہوجاتا ہے۔ وہ ایپک کے اصولوں سے واقف نہیں تھے۔ انھوں نے نہ کوئی مسلسل اور مکمل تصویر کھینچی ہے اور نہ صحیح معنی میں کردار نگاری کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے جہاں معرکہ آرائی کا نقشہ پیش کیا ہے وہ حسن بیان کی وجہ سے زندہ ہو جاتا ہے۔ پڑھنے والا انیسؔ کی خطابت، ان کی جادو بیانی، ان کی عقیدت کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔ وہ عون و محمد اور امام حسین کی تلوار کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کس طرح میدانِ جنگ میں ہر وار کی داد پانے پر تسلیم کر سکتا ہے۔ وہ عورتوں کے ماتم کے لکھنوی انداز پر زیادہ دھیان نہیں دیتا کیوں کہ اس پر انیسؔ کے بے مثل آرٹ کا جادو چل چکا ہے اور انیسؔ کے بے مثل آرٹ کا جادو، محض فن پر قدرت، ان کی فصاحت اور شیرینی میں نہیں، ان کی جذبات نگاری اور مصوری میں ہے۔ ان کی واقعہ نگاری مکمل، عظیم الشان اور رفیع نہیں، نازک، نفیس اور روشن ہے اور مثلاً جب تلوار چلنے کا منظر دکھاتے ہیں تو شروع سے اس پر ایک سنہرا پردہ ڈال دیتے ہیں اور پھر پڑھنے والا تلوار کے بجائے ناگن محبوبہ یا موج خون کو دیکھتا ہے۔ اس سیلاب میں ڈوبتا اچھلتا ہے۔ اس میں اپنے لیے ایک ذہنی تسکین پاتا ہے اور اس کی گرفت سے نکلتا ہے تو اس منظر کے بجائے اس کی ایک حسین یاد رہ جاتی ہے۔
انیسؔ کے مرثیے میں حسین یادیں ایک مذہبی مقصد رکھتی ہیں۔ ان سے ایک مذہبی جذبہ کی تسکین ہوجاتی ہے۔ یہ تسکین اپنا مقصد آپ ہے۔ اس کا اور کوئی مقصد نہیں۔ انیسؔ کے یہاں ایسے مقامات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مصوری کو بڑے مقاصد کو ایک گرمی دے سکتے ہیں۔ ان کی وہ تلوار جو ناگن کی طرح یا محبوب کے قد کی طرح لچک رکھتی ہے، ’’برقِ قہر الٰہی‘‘ بھی ہے، امام کی جنگ محض ایک فوق بشری چیز نہیں، ایک قابل تقلید کارنامہ بھی ہے مگر زیادہ تر ماحول کے اثر سے حالیؔ کے الفاظ میں یہ اعتقاد کہ (جو کچھ صبر و استقلال، شجاعت و ہمدردی و وفاداری و غیرت و حمیت و عزم بالجزم و دیگر اخلاق فاضلہ خود امام ہمام اور ان کے عزیزوں اور دوستوں سے معرکۂ کربلا میں ظاہر ہوئے وہ مافوق طاقت بشری اور خوارق عادات سے تھے) کبھی ان کی پیروی اور اقتدا کرنے کا تصور بھی دل میں آنے نہیں دیتا اور انیسؔ بھی محض مصوری پر قانع ہو جاتے ہیں۔
اس مصوری کے لیے ایسی قدروں کا انتخاب نہیں کرتے جو زندگی میں ایک نشتر بن جائیں اور سماج میں وہ عزم و استقامت و حق پرستی، وہ مجاہدانہ اسپرٹ، بے باک صداقت، وہ مصیبت میں صبر اور مخالفت میں استقلال دکھائیں۔ ایسا ہوسکتا تھا مگر کیوں نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انیسؔ بھی آخر اپنے ماحول کے ایک فرد تھے۔ ان کی خود داری انھیں ’’شہ کی ثنا خوانی کے بعد‘‘ غیر کی مدح سے باز رکھتی تھی مگر وہ ’’شہ کی ثنا‘‘ کو کافی سمجھتے تھے۔ یہ ثنا خوانی ان کے لیے نجات اور ذہنی تسکین کا باعث تھی، جس طرح محسنؔ کی نعتیہ شاعری ان کی تسکین کاباعث تھی مگر وہ اپنی صلاحیت سے پورا پورا کام نہیں لیتے، اسے دبیرؔ کی فضول اور بے کار تقلید میں ضائع کرتے ہیں اور شاعری سے اس میں زیادہ کچھ نہیں چاہتے تھے اور اس سے ان کی شاعری میں بڑی اخلاقی قدروں کے احساس کے باوجود گرمی اور رفعت نہیں ہے۔ وہ الفاظ کے جوہری ہیں اور جوہری بھی شاید اس طرح موتی نہیں پرو سکتا۔
وہ بڑے اچھے انسان ہیں اور ان کا کلام اچھی اور سچی انسانی قدریں رکھتا ہے۔ لکھنؤ کی اس سوسائٹی کے لیے انیسؔ کا کلام کئی وجوہ سے دل کشی رکھتا تھا۔ وہ اچھے اخلاقی جذبات کا احساس دلاتا تھا مگر ان جذبات کے احساس کو کافی سمجھتا تھا۔ وہ اسے ایک خیالی دنیا میں لے جاتا تھا اور وہاں کی دنیا کی سیر کے بعد جو ایک طور پر طلسماتی دنیا تھی، وہاں ٹھہرنے پر زیادہ اصرار نہیں کرتا تھا۔ وہ ماضی کی اس لڑائی میں ان لوگوں کو جو اس کش مکش سے بہت دور تھے، ذہنی طور پر خود تلوار چلاتے، بھوک پیاس کی تکلیفیں جھیلتے اور حق کی خاطر باطل سے مقابلہ کرتے دیکھتا اور وہ اس بات پر خاص طور سے مطمئن تھا کہ صرف تصویریں دیکھ لینا اس کے لیے کافی تھا۔ اس سے صرف سیر کا مطالبہ کیا تھا۔ صرف ذہنی پرواز کا تقاضا تھا۔ اس کی اپنی جانی پہچانی دنیا میں اس سے کوئی ہرج واقع نہ ہوتا تھا، وہ اس ذہنی سفر کے بعد اور بھی دل کش اور مزے دار معلوم ہوتی۔ حالیؔ اور اقبالؔ کی شاعری بھی سیر کراتی ہے مگر وہ اس سیر کی قیمت وصول کرنے پر مصر ہے۔ دونوں میں یہی بڑا فرق ہے۔
اس وجہ سے میں نے کہا تھا کہ لکھنؤ کے تمام اصناف نے فارغ البال طبقے کی عام تہذیبی قدروں کو ہر طرح باقی رکھنے اور مستحکم کرنے کی سعی کی۔ غزل کے ذریعے سے ذہن کو بہلا کر، مرثیہ کے ذریعہ خواب دکھا کر اور اچھی اخلاقی قدروں سے زبانی ہمدردی کر کے پھر دونوں میں نفیس، دل کش، مرصع، چست اور رچی ہوئی زبان استعمال کرکے عام لوگوں کو اس نزاکت اور لطافت کا عادی اور شیدائی بنایا۔ اس نزاکت، لطافت اور حسن کاری کا شیدائی بناکر عوام کی گرمی، ان کے بڑھتے ہوئے سماجی شعور، ان کی روز مرہ زندگی کی تلخیوں، ان کے اپنے حقائق کے کڑوے کسیلے احساس کو ان کی نظروں سے گرا دیا۔ ان میں ایک مٹتی ہوئی، بکھرتی ہوئی، زوال آمادہ تہذیب سے عشق پیدا کر دیا۔ اس کا نام وضع داری، مشرقیت، شرافت رکھا، ماضی سے زبانی ہمدردی کو مذہب کا نام دے کر اس نے اپنی جنت پکی کر لی اور دنیا میں امیروں اور رئیسوں میں رسوخ پیدا کرکے اس نے اسی دنیا کو بھی اس طبقے سے وابستہ کر لیا۔
یہ بات مثنوی میں اور زیادہ واضح ہے اور یہاں بھی حالیؔ کی ہمہ گیر اور دور بین نظر ہماری رہ نمائی کرتی ہے۔ حالیؔ نے کہا تھا کہ جس طرح پتیلی والے باورچیوں سے دیگ نہیں پکتی، اسی طرح غزل کے شیدائی مثنوی کی ضروریات کا التزام نہیں کر پاتے۔ مثنوی میں مسلسل قصہ ضروری ہے۔ اس میں ایک تعمیری احساس لازمی ہے۔ لکھنؤ کا قصہ گو نہ تو قصہ نگاری کے فرائض سے اچھی طرح عہدہ برآ ہوتا ہے، نہ وہ فطرت کے موافق مصوری کرتا ہے۔ وہ تشبیہات کی کثرت اور مبالغے کے زور سے ذہن کو مسحور کرنا چاہتا ہے۔ وہ فطرت، روز مرہ زندگی، تاریخی واقعات، دیومالا کی دنیا میں بھی پوری طرح سیر نہیں کر سکتا، صرف اپنے رنگین ماحول پر عاشق ہے۔ وہ فطرت کے حسن یا تاریخی واقعات کے جادو کے حوالے اپنے آپ کو نہیں کر سکتا۔ اپنی زبان، اپنےمحاوروں پر فریفتہ ہے۔
چنانچہ لکھنؤ کی بیشتر مثنویوں میں قصے ایران، توران، چین، مازندان کے ہیں مگر جذبۂ عشق، لب و لہجہ اور فلسفہ اپنا۔ لکھنؤ کا مثنوی گو نسیمؔ کمالِ فن میں بھی اختصار، چستی، فنکاری میں مصروف ہے، کوئی فضا زندہ نہیں کر سکتا۔ وہ عورتوں کی نفسیات کو سمجھتا ہے اور اسی لیے نسیمؔ کے یہاں بکاؤلی کا حوض پر آنا خوبی رکھتا ہے مگر عورت کو اس نے خاص خاص حالتوں میں دیکھا ہے۔ لکھنؤ کی بہترین مثنوی گلزار نسیم بتائی جاتی ہے مگر میرے خیال میں شوقؔ کی ’’زہر عشق‘‘ کو یہ درجہ دینا چاہیے۔ مجھے یہاں اس سے بحث نہیں کہ حالیؔ کے الفاظ میں یہاں روشنی کے فرشتے سےتاریکی فرشتے کا کام لیا گیا ہے۔
مجھے تو یہ دیکھنا ہے لکھنؤ کی ساری مثنویوں میں سب سے زندہ اور روشن اور تھرتھراتی ہوئی تصویریں شوقؔ کی مثنویوں میں ملتی ہیں مگر ذرا یہ دیکھیے کہ زہر عشق میں عشق کا معیار کیا ہے تو آپ کو یہ اندازہ ہو جائےگا کہ لکھنؤ کی تہذیب میں کیا کیا عناصر داخل ہو چکے تھے۔ زہر عشق میں عشق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ وہ محض ایک پرچھائیں معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ آب و تاب ہے اس کی ہیروئن میں ہے، جو بہ یک وقت عاشق بھی ہے اور معشوق بھی ہے، جو حسن کی رعنائی کےساتھ عشق کی گرمی اور ہڈیوں تک کو پگھلا دینے والی آنچ بھی رکھتی ہے، جو عشق کی خاطر اپنی بساط ہنس کر الٹ سکتی ہے اور بہ قول مجنوں کے منیزہ اور اپنا کسر نینا کی یاد دلاتی ہے۔
’’زہر عشق‘‘ اور شوقؔ کی دوسری مثنویوں سے واضح ہوتا ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب میں عورت خاصی آسانی سے حاصل ہو جاتی تھی اور یہی نہیں مردوں کی زندگی میں ضرورت سے زیادہ دخیل اور اثرانداز ہو گئی تھی۔ زندگی کےمعرکوں میں نہیں، رفیقِ زندگی کی حیثیت سےنہیں، بلکہ مردوں کو حقائق سے علاحدہ لے جانے اور اپنی رنگینیوں میں اسیر کرنے کے لیے۔ اس تہذیب پر نسائیت کا جو الزام لگایا جاتا ہےاس کی یہی وجہ ہے۔
اس تہذیب نے طوائف کو ایک مرکزی حیثیت دی اور یہ انصاف ہے کہ طوائف نے اس تہذیب کے رنگ و روغن کو چمکانے میں بہت حصہ لیا مگر اس کے اثر سے گفتار، کردار، خیال اور عمل میں عورتوں کے جذبات ضرور آئے ورنہ واجد علی شاہ لکھنؤ کے ہیرو نہ ہو سکتے تھے۔ پورا لکھنؤ ایک عورت تھا جس کے پیاجانِ عالم واجد علی شاہ تھے جنھوں نے اپنی سلطنت کو باقی رکھنے کے لیے ہاتھ بھی نہ ہلایا مگر اپنی رنگ رلیوں میں آخر وقت تک مصروف رہے۔
یعنی مثنوی میں جو خارجی شاعری کے لیے بہت موزوں ہے اور جس میں شاعر مسلسل قصہ بیان کرکے، حقیقی مصوری کرے، موزوں اور مناسب فضا پیش کر کے جزئیات کی سچی اور منہ بولتی تصویریں پیش کر کے اپنا فرض ادا کرسکتاہے، لکھنؤ کے بیشتر شاعر ایک مقررہ سانچے کی پابندی کرتے ہیں۔ اس سانچے میں بھی سراپا، ہجر و صال کے مناظر، بادشاہ کے عدل و انصاف، شادی کی دھوم دھام، فطری عناصر، اپنی اپنی جگہ اس طرح آتے ہیں کہ سارے نقشوں میں بے حد یکسانیت ہے۔ انفرادیت بہت کم۔ صرف شوقؔ کے یہاں زندگی ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ شوقؔ نے جو قصے، افراد، ماحول اور تصویریں لی ہیں، ان سے اچھی طرح واقف ہیں اور اس ماحول سے نکلنے کی انھیں مطلق خواہش نہیں ہے۔
سحر البیان میں بھی لکھنؤ ہے اور لکھنؤ کی معاشرت مگر بیان کرنے والا دہلی کا ہے۔ اس کی نظر، اسلوب، ساخت سب دیسی ہی ہے۔ قصہ فوقِ فطری ہے مگر جزئیات زندہ، جیتی جاگتی اور حقیقی۔ اس وجہ سے بدرؔ منیر، بے نظیرؔ، نجم النساء، وغیرہ زندہ ہیں۔ بکاؤلی بھی کبھی زندہ ہوتی ہے مگر نسیمؔ جا بہ جا اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ لکھنؤ کی شاعری دوسرے الفاظ میں ایک ذہنی قلعے میں بند ہو جاتی ہے۔ اس کا تخیل اسے ماضی کی دنیا میں لے بھی جاتا ہے تو وہ ماضی کو زندہ نہیں کر سکتی۔
اس کا مشاہدہ جب اسے حال پر نظر ڈالنے کی دعوت دیتا ہے تو وہ حال کی ایسی تصویریں پیش کرتی ہے جن میں ایک مخصوص شہری بلکہ درباری ماحول ہے۔ اس کا عشق زیادہ تر کامیاب یعنی سستا عشق ہے۔ اس کا حسن نظر فریب ہے، دل گداز نہیں۔ اس کے ادب میں عوام کا گزر بہت کم ہے۔ اس کا سرمایہ بہت ہے مگر نہ وزنی ہے نہ وقیع، مگر اس میں ایک عجیب قسم کا سکون و اطمینان ہے، نہ کوئی ذہنی الجھن ہے نہ کوئی نفسیاتی گرہ، نہ عشق ماضی ہے نہ فکر فردا۔ نہ وہ اپنے حال میں مگن ہے۔ اس میں ایک دل کش رندی ہے، ایک تفریحی ولولہ ہے، ایک لطف سخن ہے۔ اس میں ایک چیز کا احترام، اس کی خاطر ریاض اور خون پانی ایک کرنے والا ولولہ ہے اور وہ ہے اس کا فن۔ یہ ہر شاعر سے کم سے کم ایک مقررہ معیار کا مطالبہ کر کے اس فن کو فن کی طرح سیکھنے کا ولولہ عطا کرتا ہے۔ یہ فن پر ہر چیز کو قربان کر سکتا ہے لیکن اس کی علمیت اسے وہ گہرا حکیمانہ احساس نہیں دیتی جو علم کو زندگی کی بڑی قدروں کے تحت رکھتا ہے بلکہ اس کی برہمنیت کو نمایاں کرتی ہے۔ اسے تنک جبیں یا High Brow بناتی ہے۔
اس کی وجہ سے میرؔ یا نظیرؔ کی بعض عظمتوں سے منہ موڑ کر بیٹھ جانا سکھاتی ہے اور اردو کو فارسی شاعری کا غلام بنا دیتی ہے۔ یہ تجربوں کا قائل نہیں، روایات کا پرستار ہے، یہ روحانیت یا جذبہ کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ضبط و نظم یا کلاسیکل شان کو عزیز رکھتا ہے اور نثر میں اس کا کیا کارنامہ ہے؟ شروع شروع میں تو اس نے نثر کو منھ ہی نہیں لگایا اور جب نثر کو اس کے دربار میں باریابی کی اجازت ہوئی تو اسے شاعری کی انگلی پکڑ کر آگے آنا پڑا۔
لکھنؤ کی نثر کا پہلا بڑا کارنامہ فسانۂ عجائب ہے مگر کیسا کارنامہ؟ اردو کے نقادوں نے اس کی کس کس چیز کو نہیں سراہا اور بشن نراین در، چکبستؔ، عسکریؔ اور دوسرے اشخاص نے اس کے متعلق کیسے کیسے تعریفی الفاظ نہیں استعمال کیے، حالانکہ نہ اس میں طلسم ہوش ربا کا سا پھیلاؤ اور جادو ہے، نہ باغ و بہار جیسی دل کشی اور دل آویزی۔ سرور طلسم ہوش ربا کے جادو گروں کے مقابلے میں بالکل مداری معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے قصے کی ایک خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ طبع زاد ہے مگر اس میں نہ تخیل کا جادو ہے نہ تخلیق کی عظمت، قصہ لنگڑا لنگڑا کر چلتا ہے، اشخاص بالکل بے جان ہیں۔ جادو گر بونے معلوم ہوتے ہیں، نہ ہیرو میں عظمت ہے نہ ہیروئن میں دل کشی۔
انجمن آرا میں ایک چمک دمک اور آن باقی ہے مگر ایک معمولی عورت کی۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں پیدا ہوتی جس کی خاطر انسان جان دے دے یا زمین وآسمان تہہ و بالا کردے۔ بے ثباتی دنیا پر تقریریں جو بہ ظاہر بڑی پراثر معلوم ہوتی ہیں قصے کا صحیح معنوں میں جزو نہیں بن پاتیں۔ سرورؔ جادو اور طلسم کا ذکر کرتے ہیں مگر ان کا فن جادو اور طلسم میں انھیں کھونے نہیں دیتا، اسی لیے اس میں تاثیر نہیں۔ وہ محض لکیر کے فقیر ہیں۔ طلسم ہوش ربا کی بات دوسری ہے۔ اس کا ڈھانچا پرانا ہے۔ اس کے اولین نقاش وہ تھے جن کے آبا و اجداد نے لڑائیوں میں حصہ لیا تھا اور رزم و بزم کے سیکڑوں مناظر ان کے سامنے سے گزرے تھے۔ لکھنؤ میں اس نقش پر خوب رنگ آمیزی ہوئی اور کتاب میں ایک ادبی حسن، روانی اور دل کشی آ گئی مگر اس کی عظمت اسے لکھنؤ سےنہیں اصل قصے سے ملی۔
فسانۂ عجائب میں نہ صرف قصہ معمولی اور بے جان ہے۔ اس میں انداز بیان سرے سے نثر کا نہیں۔ اس کی مقفیٰ عبارت پر تکلف، نثر جا بجا تشبیہات و استعارات سے آراستہ، زبان اردو نثر پر ایک دھبہ ہے۔ نثر وضاحت و صراحت چاہتی ہے۔ رواں اور سادہ ہوتی ہے، خیال کو ادا کرنا اس کا سب سے بڑا فرض ہوتا ہے، بیان واقعہ، اس کا سب سے بڑا حسن۔ فسانۂ عجائب کی نثر کچھ کہنے سننے، کچھ بتانے یا دکھانے کے لیے نہیں وجد میں لانے کے لیے ہے اور جب تخیل یا مشاہدہ سے وجد میں نہیں لا سکتی تو پیترے یا آرائش کے ذریعے سے مرعوب کرنا چاہتی ہے۔ لکھنؤ کی تہذیب میں نثر اگر عملی ہے تو اصطلاحات کے چکر میں گرفتار ہے۔ اگر تفریحی ہے تو محض سر دھننے اور وجد کرنے کے لیے، اس میں اچھی نثر کم ہے بری شاعری کی آرایش زیادہ۔ اس کی زندہ دلی اودھ پنچ میں نمایاں ہوتی ہے اور باوجود اس کے کہ اودھ پنچ کی نثر میں اعلیٰ ظرافت کی پھوار کم ہے، چھیڑ چھاڑ ہنسی اور قہقہے کی بوچھار زیادہ، پھر بھی یہ سرورؔ کی مقلد ہوتے ہوئے بھی سرورؔ سے زیادہ زندگی رکھتی ہے۔
لکھنؤ کی نثر کی عظمت صرف سرشارؔ کے یہاں حاصل ہوئی اور اس کی وجہ یہ ہےکہ سرشار ایک عاشق کا دل رکھتے ہوئے بھی حکیمانہ شعور رکھتے ہیں اور جس تہذیب میں انھوں نے آنکھیں کھولی ہیں، اس سے محبت رکھنے کے باوجود اس پر تنقیدی نظر ڈال سکتے ہیں۔ یہاں نثر سے وہ کام لیا گیا ہے جس کے لیے وہ موزوں ہے۔ بڑا ادب اسی طرح وجود میں آتا ہے۔ یوں دیکھیے تو سرشارؔ کے یہاں بہت سی خرابیاں موجود ہیں۔ وہ داستانوں سے بہت متاثر ہیں۔ مقفیٰ عبارتیں لکھنے کا بھی انھیں شوق ہے۔ ان کے قصوں میں کوئی تنظیم نہیں ہے اور وہ اس گہرائی میں جانے سے گھبراتے ہیں جس کے بغیر کردار میں آب ورنگ نہیں آتا۔ ان کا ہنسنا، ہنسانا بے ضرورت معلوم ہوتا ہے۔ وہ بیچ بیچ میں پند و نصیحت بھی شروع کر دیتے ہیں مگر یہ چیزیں ان کی نثر کی تخلیقی شان، ان کی فضا، ان کی مصوری، ان کے شوخ رنگوں، ان کی طنز اور اس طنز کی تیزی و دل آویزی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ سرشارؔ کا ہیرو ہر شہر و دیار میں جاتا اور وہاں کی بیہوددہ رسموں پر جھلّاتا ہے۔
لیکن دراصل وہ لکھنؤ ہی میں رہتا ہے اور جس تہذیب کی ہنسی اڑاتا ہے اس کا عاشق بھی ہے۔ سرشارؔ میں یہ بڑائی ہے کہ وہ اپنے ہی حصے پر طنز کر سکتے ہےیں اور اپنے جگر پاروں کی قربانی دے سکتے ہیں۔ سرشارؔ کی نثر میں جان ان کی بے پناہ واقعیت، ان کی اپنے ماحول کی رگ رگ سے واقفیت، ان کے مکالموں کی ہنستی مہکتی فضا، ان کی ظرافت کے طوفانی سیلاب سے آتی ہے۔ وہ نثر کے کسی اچھے اسلوب کے مالک نہیں۔ اس کے لیے جو ضبط و نظم ضروری ہے وہ ان کے بس کا نہیں۔ نثر بول چال کی زبان کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ یہاں جذبے کو برانگیختہ کرنا نہیں، ذہن میں روشنی کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ دلیل یا منطقی استدلال سے کام لیتی ہے۔ خیال کے بہ جائے مثال سے وجود میں آتی ہے۔
شاعری میں مبالغہ حسن ہے۔ شاعری خطابت سے کام لیتی ہے، نثر اس سے بچتی ہے۔ شاعری میں موسیقی کا لطف اور کھنک ہے اور نثر اس کھنک اور جھنکار سے دور رہتی ہے۔ شعر کو ریاضی سےازلی بیر ہے۔ نثر ریاضی کی قطعیت اور وضاحت سے کام لیتی ہے۔ شاعری میں علمی مسائل اور سماجی حقائق کو اشاروں میں بیان کیا جاتا ہے۔ نثر میں اس کی تفصیل اور تشریح ہوتی ہے۔ شعر سے بھی آپ کام لے سکتے ہیں مگر ایک حد تک، نثر عام زندگی، بڑھتی ہوئی ضروریات، یعنی موجودہ دور کی روز افزوں پیچیدگیوں کو سلجھانے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ سرشار سے پہلے لکھنؤ والوں میں یہ نظر پیدا نہ ہوئی تھی کہ وہ اپنی زندگی پر تنقید کر سکیں۔ اسی لیے ان کے یہاں صحیح معنی میں نثر نہیں تھی۔
سرشارؔ کی نثر بھی شاعرانہ اور رنگین ہے مگر وہ لکھنؤ کی پہلی بڑی کوشش ہے جو بول چال سے زیادہ قریب اور قافیے کی موسیقی سے بے نیاز ہے۔ ان کی نثر چست نہیں مگر آزاد افسانے کے لیے موزوں ہے۔ لکھنؤ کی تہذیب کا نقشہ، لکھنؤ کی زبان اس کے اصل لب و لہجہ میں ہی زیب دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس میں درس اور حس ہے اور اس کی وجہ سے اس کی اہمیت مستقل ہے۔ سرشارؔ جاگیردارانہ تہذیب کےفرد ہوتے ہوئے، اس تہذیب کو مٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ یہ مٹنا ان کے لیے تھوڑے سے افسوس کا باعث تھا مگر وہ اسے قدرتی سمجھتے تھے۔ وہ نئی سرمایہ دارانہ تہذیب سے بیگانہ نہیں تھے۔ اس کی بعض قدروں کے حامی تھے۔ وہ ماضی کی طرف نہ تو لوٹنا چاہتے نہ ماضی میں ٹھہرنا انہیں پسند تھا۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ اسے اوروں کو دکھانے پر قانع تھے، یہ بھی بڑی بات ہے۔
لکھنؤ کی نثر میں شررؔ اور رسواؔ کی بھی اہمیت ہے، جس طرح لکھنؤ کی شاعری میں شوقؔ قدوائی اور چکبست کی شاعری کی اہمیت ہے۔ ان کے زمانے میں لکھنؤ کے ذہنی قلعے میں کچھ شگاف ہو گئے۔ جاگیردارانہ تہذیب جسے شرافت، وضع داری اور مشرقیت کا خوش نما نام دے دیا گیا تھا، اس قدر پرانی ہو گئی تھی کہ اس کی چاک دامانی نظر آنے لگی۔ اس دور کے لوگوں نے بعض نئی باتوں کو قبول کر لیا مگر دل سے نہیں دماغ سے۔ تہذیب الاخلاقؔ اور اودھ پنچ کی وجہ سے رسالوں اور اخباروں میں اصولی اختلافات، مباحثوں اور طنز کے تیروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا یعنی لکھنے والوں کا ایک گروہ ادب کو ایک طرف لے جانا چاہتا تھا۔ دوسرا دوسری طرف۔
اودھ پنچ نے جب بہ قول چکبستؔ، ۱۸۷۷ء میں زبان اور ظرافت کے چہرے سے نقاب اٹھائی تو یہ لکھنؤ اسکول کی اپنی ادبی فضیلت کو برقرار رکھنے کی آخری بڑی کوشش تھی اور یہ کوشش ہر لحاظ سے ناکام رہی۔ شررؔ اور رسواؔ بھی لکھنؤ کی تہذیب کی مصوری کرتے ہیں مگر وہ بھی اس صف میں شامل ہو چکے ہیں جو لکھنؤ اور دہلی کی آمریت سے ادب کو آزاد کر رہی ہے۔ سرشارؔ بھی نئی صف کے قریب ہیں مگر وہ اس قدر جدید نہیں جتنے شرؔر اور رسواؔ۔ شررؔ نے ایک طرف علی گڑھ تحریک کی ذہنی قیادت کو قبول کیا اور دوسری طرف بعض لکھنوی خصوصیات کو کلیجے سے لگائے رکھا۔
رسواؔ ذہنی اعتبار سے جدید ہیں۔ امراؤ جانؔ ادا ایک جدید ناول ہے۔ اس کا نظم و ضبط، اس کی مصوری، اس کی واقعیت، اس کا فن جدید ہے۔ رسواؔ معلم اخلاق نہیں بننا چاہتے اور جہاں وہ اخلاقیات بگھارنے لگتے ہیں، وہاں فن کار نہیں رہتے۔ یعنی نظم میں شوقؔ قدوائی اور چکبست کے وقت سے اور نثر میں شررؔ اور رسواؔ کے زمانے سے لکھنؤ اسکول کی آمریت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد لکھنؤ کے شاعر صفیؔ، ثاقبؔ عزیزؔ، اثرؔ، میر و غالبؔ کو لکھنؤ کے زبان دانوں سے بڑا درجہ دیتے ہیں اور لکھنؤ کے نثر نگار، مضامین، رسالوں، کتابوں اور اخباروں کے ذریعے سے دوسروں کی طرح ایک پڑھے لکھے حلقے کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتے ہیں یعنی ادب سے ایک کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔
لکھنؤ جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان کے وسطی حصے سے تعلق رکھتا ہے۔ اپنی تاریخ اور تہذیب کی وجہ سے نئی ہواؤں، نئے خیالات، نئی تحریکات کو جلد قبول نہیں کر سکتا۔ یہ روایات کا پرستار ہے اور روایات بھی جاگیرداری کے زمانے کی۔ سرمایہ دارانہ تہذیب دم توڑ رہی ہے اور بورژوا طبقے کو ایک نیا غم اور نیا کرب ملا ہے جس کی وجہ سے اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ جیے یا مر جائے۔ لکھنؤ میں ابھی یہ دور بھی صحیح معنوں میں پوری طرح گزرا نہیں۔ لکھنؤ والوں نے اپنے جزیرے تک کسی طوفان کو آنے نہ دیا۔ اقبالؔ کی آواز بھی یہاں ابھی بالکل نئی ہے۔ عشقؔ اور ان کے شاگردوں کے سخت گلا گھونٹنے والے اصول اب بھی دبی زبان سے سراہے جاتے ہیں۔ لکھنویت کو کچھ لوگ، ماتم، کفن، میت اور موت کی پرستش سمجھتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں۔ در اصل لکھنؤ کے شباب میں یہ چیز نہیں تھی۔ اس میں ایک زندہ دلی، ایک تفریحی لے، ایک مخصوص ظرافت ایک سستا رندانہ انداز تھا۔
یہ ماتمی لے امیرؔ و جلالؔ تک بہت ادبی ہوتی تھی، مگر لکھنؤ کی رہی سہی رونق کے رخصت ہو جانے پر، لکھنویت کے طنزیاتی تیروں کے بے کار ہو جانے پر جاگیردارانہ تہذیب کا ماتم، میرؔ کی یاسیت کی آڑ لے کر الفاظ میں اتر آیا۔ عزیزؔ اور ثاقبؔ، غالبؔ کے خیال کو میرؔ کی زبان میں ادا کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ میرؔ کی زبان کے لیے میرؔ کا سا جذبہ اور غالبؔ کے خیال کے لیے ویسا ہی ذہن چاہے، جو تاریخی اعتبار سےانہیں حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس ماتمی لے میں ایک اور بات بھی پوشیدہ ہے۔ انیسؔ نے مرثیہ کو جس درجے تک پہنچا دیا تھا، اس کے بعد اس کی نقالی ہی ممکن تھی۔ ان کے جانشینوں نے ایک حد تک یہ فرض انجام دیا مگر مرثیے کی مقبولیت کے محرکات اودھ کی سلطنت کے بعد کم ہوتے جا رہے تھے، اور مرثیہ سننے اور ان میں ایک آسودگی اور ذہنی تسکین ڈھونڈنے کا جذبہ باقی تھا۔ یہ تسکین اسے ماتمی لے میں مل گئی۔
عزیزؔ و ثاقب کی شاعری اس لے میں بالکل ڈوبی ہوئی ہے۔ صفیؔ اور اثرؔ کے یہاں یہ رنگ کم ہے۔ صفیؔ شروع سے قومی تحریکوں سے وابستہ رہے۔ اس تعلق نے انھیں نئی امیدوں اور آرزؤوں سے آشنا ہونا سکھایا۔ اس کی وجہ سے چکبستؔ میں وطنی اور قومی اور سیاسی شاعر کی عظمت ملتی ہے۔ اثرؔ کے مزاج میں لطافت انھیں عزیزؔ کے رنگ میں غرق نہ کر سکی۔ ان کی تعلیم اور ملازمت نے انھیں لچکدار ذہن دیا۔ فیضان (Inspiration) کے لیے وہ میرؔ ہی کی طرف واپس گئے۔
دہلی کی شاعری جذبے کی شاعری ہے، وہاں جذبہ خود حسن رکھتا ہے۔ لکھنؤ کی شاعری جذبے کو فن پر قربان کر دیتی ہے۔ اس میں تکلف، امیرانہ شان اور ایک نسائیت اس کی تہذیب سے آتی ہے۔ یہ جاگیرداری کی قدروں کو اس کا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی باقی رکھنے کا نتیجہ ہے۔ شروع میں اس میں ماتمی لے نہیں تھی۔ مرثیے کے زوال کے بعد یہ قدرتی طور پر آ گئی۔ اس نے بول چال کی زبانوں کو بہت دیر میں منہ لگایا۔ احساسِ برتری نے اسے ایک طنزیاتی لہجہ دیا تھا جسے اس نے اودھ پنچ میں خوب استعمال کیا۔
اس کے یہاں وہ ظرافت ہے جسے wit کہا جا سکتا ہے مگر Humour کی بلندی اسے نصیب نہیں۔ اس میں جو اطمینان و سکون کی لہر ملتی ہے وہ اس کی سطحیت کو واضح کرتی ہے۔ اسے وہ خلش کبھی نصیب نہیں ہوئی جو بڑے خوابوں اور سخت حقیقتوں کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس نے رومانیت یا بغاوت کو ہمیشہ شبہ کی نظر سے دیکھا۔ اس نے زبان کو شستہ اور مہذب کیا مگر مقید اور محدود بھی۔ اس نے دہلی کی روایات کو ٹھکرا کر اپنا نقصان کیا۔ اس نے زبان اور ادب کی بڑی خدمت کی مگر زبان اور ادب کو بڑی چیزوں کی وفاداری کے بہ جائے چھوٹی چیزوں کی وفاداری سکھائی۔ لکھنؤ میں ہر پرانی اور فرسودہ روایت کو اپنا گھر مل گیا اور ہر نئی تحریک کو اس نے شبہ کی نظر سے دیکھا۔ نثر میں اس کا علمی سرمایہ بہت کم ہے اور اس کا تفریحی لٹریچر باغ و بہار کی سی ابدی دل کشی نہیں رکھتا۔ اس کا مزاحیہ لٹریچر ضرور قابل قدر ہے مگر اس میں بھی رعایت لفظی بہت زیادہ ہے۔
ادب میں ہیرو پرستی کی طرح ’’دبستان پرستی‘‘ بھی بری چیز ہے۔ لکھنؤ میں یہ دونوں چیزیں بہت نمایاں رہیں اور یہ دونوں ایک حد سےبڑھنی نہیں چاہئیں۔ لکھنؤ اسکول کے سارے ادبی کارنامے پر نظر ڈالنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ادب میں بڑائی صرف فن پر جلا کر نے سے نہیں آتی، فن کو زندگی کی بڑی صالح اور ترقی پذیر قوتوں کا خادم بنانے سے آتی ہے۔ فن پر زیادہ توجہ زندگی سے بڑی حد تک گریز کا نتیجہ ہے اور جب فن پر یہ توجہ، وسعت، عمومیت، توانائی، زور، جوش اور جذبہ پیدا کرنے کے لیے نہیں، نرمی، نزاکت، نفاست، لوچ اور مناسبت پیدا کرنے کے لیے ہو تو یہ فن کی پرستش اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ادب کو محض شاعری یا ساحری بنانا ادب کے بحرِ بے کراں کو جوئے کم آب میں تبدیل کرنا ہے۔ اسے تعلیم اور سیاست، تاریخ اور سوانح عمری، تنقید اور تبصرے سے لے کر سائنس، اقتصادیات اور نفسیات تک سے اپنا مواد لینا چاہیے اور اپنے طورپر ’پیمبری‘ بھی کرنا چاہیے۔