لوگ کچھ راہ محبت میں ٹھہر جائیں گے

لوگ کچھ راہ محبت میں ٹھہر جائیں گے
ہم کہاں وہ ہیں جو خطرات سے ڈر جائیں گے


جانتے ہی نہیں یہ زخم دئے ہیں کس نے
لوگ دیتے ہیں تسلی کہ یہ بھر جائیں گے


اس نے یہ کہہ کے بندھائی ہے مری ہمت دل
آئے ہیں غم کے زمانے یہ گزر جائیں گے


دیر سے آئیں گے وہ دل مرا کہتا ہے یہی
الٹے منہ پر کئی الزام وہ دھر جائیں گے


اس کے آنے کے تو امکاں نظر آتے ہی نہیں
اسی امید میں سب شام سحر جائیں گے


تھوڑی سی دار محبت کی ضرورت ہے سہیلؔ
جو جراثیم ہیں نفرت کے وہ مر جائیں گے