لوگ جام و سبو میں کھوئے رہے

لوگ جام و سبو میں کھوئے رہے
ہم تری آرزو میں کھوئے رہے


زندگی کی تھی جستجو ہم کو
عمر بھر جستجو میں کھوئے رہے


محفل رنگ و بو تو مل نہ سکی
خواہش رنگ و بو میں کھوئے رہے


اشک جو بچ رہے تھے آنکھوں میں
حرمت آبرو میں کھوئے رہے


ہر طرف تھا حصار کانٹوں کا
پھول فکر نمو میں کھوئے رہے


کیا تصور تھا چشم ساقی کا
رات بھر ہم سبو میں کھوئے رہے


شوق آوارگی نہ پوچھ ضیاؔ
لذت کو بہ کو میں کھوئے رہے