لو اندھیروں نے بھی انداز اجالوں کے لیے

لو اندھیروں نے بھی انداز اجالوں کے لیے
کیسی افتاد پڑی دیکھنے والوں کے لیے


تازہ کاری نے وہاں کر دیئے عالم ایجاد
ہم ترستے ہی رہے تازہ خیالوں کے لیے


شاہراہوں سے گزرتے ہیں شب و روز ہجوم
نئی راہیں ہیں فقط چند جیالوں کے لیے


کام ماضی کی یہ سادہ نگہی کیا آتی
عصر حاضر ترے پیچیدہ سوالوں کے لیے


کتنی شمعیں بجھیں نادیدہ کرن کی خاطر
کتنے سورج لیے موہوم اجالوں کے لیے


کتنے سنگین حقائق سے نچوڑا ہے لہو
چند خوابوں کے لیے چند خیالوں کے لیے


گو نگہ داریٔ آداب جنوں مشکل ہے
پھر بھی آساں ہے ترے چاہنے والوں کے لیے