لکھیں گے نہ اس ہار کے اسباب کہاں تک
لکھیں گے نہ اس ہار کے اسباب کہاں تک
رکھیں گے مرا دل مرے احباب کہاں تک
گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں پڑا ہوں
شل ہوں گے نہ آخر مرے اعصاب کہاں تک
حسرت ہے کہ تعبیر کے ساحل پہ بھی اتروں
دیکھوں گا یونہی روز نئے خواب کہاں تک
آواز سے عاری ہیں جو ٹوٹی ہوئی تاریں
کام آئے گی اس حال میں مضراب کہاں تک
وہ ابر کا ٹکڑا ہے مگر دیکھنا یہ ہے
ہوتی ہیں نگاہیں مری سیراب کہاں تک
کچھ دور کنارے کے مناظر تو ہیں لیکن
جائے گا یہ دریا یونہی پایاب کہاں تک
ڈرتا ہوں کہیں ضبط کا پل بیت نہ جائے
شعلوں کو چھپاؤں گا تہہ آب کہاں تک