لیجئے اب راز دل افشا ہوا
لیجئے اب راز دل افشا ہوا
ہر طرف باتیں ہوئیں چرچا ہوا
مجھ پہ بھی طاری تھی جیسے بے خودی
وہ بھی تھا جیسے کہیں کھویا ہوا
تیرے بن جینا کسے منظور تھا
زندگی سے ایک سمجھوتہ ہوا
خانۂ دل میں چراغ آرزو
ہے کبھی جلتا کبھی بجھتا ہوا
اس کی رنگت پر کھلے ہر اک لباس
روپ اس کا ہے عجب نکھرا ہوا
اک جوانی کیف میں ڈوبی ہوئی
اک بدن مہکا ہوا ترشا ہوا
اب تلک تازہ ہے یادوں کی مہک
آپ سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہوا
دل جگر عقل و خرد ہوش و حواس
ایک لشکر تھا کہ جو پسپا ہوا
دل کے کعبے میں مرے اب بھی ضمیرؔ
ایک بت مدت سے ہے رکھا ہوا