لیاری کے فٹب بالر

فٹ بال ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ جاری ہیں اور کچھ چند لاکھ آبادی کے ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے ورلڈ کپ کے لیے اپنی ٹکٹ بک کرا  لی ہے۔

 

 ہمیشہ سے ہر پاکستانی کی خواہش رہی ہے کہ اے کاش، ہماری ٹیم بھی ورلڈ کپ کھیل پاتی مگر یہ حسرت، حسرتِ نا کام و تشنہ کام  ہی رہی

۔یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ ہوا تھا جس میں پاکستانی ٹیم دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ ان بچوں میں سے اکثریت کراچی کے علاقے لیاری سے تھی۔ لیاری جس کی آبادی دس لاکھ سے کسی صورت کم نہیں۔ لیاری میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور یہاں کے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا فٹ بال ہی ہے۔ اور وہ ہر قسم کی قربانی کے تیار رہتے ہیں۔  اوریہاں  رجسٹرڈ کلب بھی بیسوں ہیں ،جن کے مابین آئے روز ٹورنامنٹ ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ہم کہیں کہ لیاری کی پہچان فٹ بال ہی ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔

اگر دنیا نہیں جانتی تو  بھی پورا پاکستان تو جانتا ہی ہے کہ یہاں اگر کسی کو واقعی فٹ بال کا جنون ہے تو وہ لیاری کے مکرانی و بلوچی اور چترالی و گلگتی ہیں جن کے بے شمار فٹ بال کلبز بنے ہوئے ہیں اور باقاعدہ میچز ہوتے ہیں۔مگر کسی کو کیا فرصت کہ لیاری کا چکر لگائے ۔اگر آپ کراچی کے علاقے ، لیاری میں داخل ہوں تو محسوس ہو گا کہ کسی افریقہ کے دیس میں نکل آئے۔ ہر طرف سیاہ فام گھنگریالے بالوں والے لوگ مضبوط قد کاٹھ کے لوگ نظر آئیں گے جن کے آباؤ اجداد کا تعلق افریقہ کے ملک تنزانیہ سے ملحق  نیم خود مختار ریاست ، زنجبار سے تھا جو یہاں کسی طرح، کسی زمانے میں  آئے اور مسلمان ہوئے اور یہیں رچ بس گئے ۔

پاکستان کی فٹ بال فیڈریشن کس قدر کرپٹ ہے یہ سب جانتے ہیں۔ مجھے پاکستان کی نام نہاد فٹ بال ٹیم میں ایک بھی کھلاڑی لیاری یا گلگت ،چترال کا نظر نہیں آتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر لیاری اور گلگت یا  چترال کے مختلف فٹ بال کلبز سے بہترین کھلاڑی منتخب کر کے ایک قومی فٹ بال ٹیم تشکیل دی جائے اور پھر کسی غیر ملکی کوچ سے ان کی ٹریننگ کروائی جائے تو اگلے ورلڈ کپ میں کھیلنے کے لئے لازماً ہماری ٹیم  کوالیفائی کر لے گی۔ دو سال قبل قطر میں ہونے والے یوتھ ٹورنامنٹ کو لیاری کے لڑکوں نے ہی جیتا تھا مگر کسی میڈیا کو دکھانے کی ضرورت یا فرصت کہاں ہے؟

یہاں ٹیلنٹ اور میرٹ کو کون دیکھتا ہے۔ ہاکی کا ستیا ناس کردیا۔ سفارشی بھرتیاں کر کر کے کرکٹ کا ستیا ناس  بھی کر ہی چکے تھے  ۔ وہ تو بھلا ہوپاکستان سوپر لیگ  کا، کہ جس کے نتیجے میں  ملکی سطح پر ٹیلنٹ کی تلاش  ہوئی اور گاؤں ، دیہات سے ایسے ایسے ہیرے دریافت ہوئے جو اپنے کھیل کی بنیاد پر قومی ٹیم میں شامل ہوئے اور آج ان کی بدولت پاکستان T20 کی نمبر ون ٹیم اور چیمپئنز ٹرافی ہولڈر ہے۔ ذرا  اپنی T20ٹیم پر نظر ڈال لیجئے اور دیکھئے کہ اس میں کتنے کھلاڑی PSL سے آئے ہیں۔ تو جہاں میرٹ اور ٹیلنٹ ہوگا وہاں کامیابی یقینی ہے۔ یہی قانون فٹ بال پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے سدا بہار صدر مخدوم فیصل صالح حیات زندہ باد ر۔بیس سال سے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر ہیں اور شاید اگلے بیس سال بھی وہی رہیں گے۔

پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ یا ان کا کام صرف ملکی اور غیر ملکی کروڑوں کے فنڈز کی بندر بانٹ رہ گیا ہے؟ کیا اس کا بھی کوئی احتساب ہے؟