لذت احساس غم سے دل کو بہلاتے رہے

لذت احساس غم سے دل کو بہلاتے رہے
کچھ ادھورے خواب تھے رہ رہ کے یاد آتے رہے


منزل غربت میں پیچھے رہ گئے ہشیار لوگ
ہم دوانے تھے بگولوں میں بھی اتراتے رہے


لٹنے والوں سے مزاج شام غربت پوچھئے
ان کو کیا معلوم جو طوفاں سے کتراتے رہے


رسم و راہ نو بہاراں کس قدر دلچسپ ہے
کچھ کلی کھلتی رہی کچھ پھول مرجھاتے رہے


کیا خبر رستے میں کس نے روپ کیا دھارا میاں
مہرباں وقت سفر تو رنگ برساتے رہے


رونے والے بیٹھے بیٹھے وقت کو رویا کئے
چلنے والے آندھیوں میں بھی چلے جاتے رہے


بھاگتے جاتے ہیں اب شام نظر سے دور دور
مدتوں تک جو دھندلکے غم کو راس آتے رہے


ہم تو ساری رات نازشؔ بزم میں تھے دم بخود
لوگ انداز تغافل کی قسم کھاتے رہے