لذت آگہی
میں عجیب لذت آگہی سے دو چار ہوں
یہی آگہی مرا لطف ہے مرا کرب ہے
کہ میں جانتا ہوں
میں جانتا ہوں کہ دل میں جتنی صداقتیں ہیں
وہ تیر ہیں
جو چلیں تو نغمہ سنائی دے
جو ہدف پہ جا کے لگیں تو کچھ بھی نہ بچ سکے
کہ صداقتوں کی نفی ہماری حیات ہے
مرے دل میں ایسی حقیقتوں نے پناہ لی ہے
کہ جن پہ ایک نگاہ ڈالنا
سورجوں کو بطون جاں میں اتارنا ہے
میں جانتا ہوں
کہ حاکموں کا جو حکم ہے
وہ دراصل عدل کا خوف ہے
وہ سزائیں دیتے ہیں
اور نہیں جانتے
کہ جتنی سزائیں ہیں
وہ ستم گری کی ردائیں ہیں
مجھے علم ہے
یہی علم میرا سرور ہے یہ علم میرا عذاب ہے
یہی علم مرا نشہ ہے
اور مجھے علم ہے
کہ جو زہر ہے وہ نشے کا دوسرا نام ہے
میں عجیب لذت آگہی سے دو چار ہوں