لچھمی
کارخانوں کی لمبی اور بھدی چمنیوں سے دھواں مزدوروں کی آہوں کی طرح باہر آرہا تھا اور چاروں طرف جلی ہوئی راکھ کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ یہ شہر کا وہ حصہ تھا جو مزدوروں اور صرف مزدوروں سے آباد تھا۔ مجھے ایک کارخانہ میں پندرہ روپیہ کی ایک اسامی مل گئی تھی، اس لیے میں بھی یہیں رہتا تھا۔ یہاں مکانوں کا کرایہ نسبتاً کم تھا جو میری لمبی اور خالی جیب کے لیے خاص طور سے موزوں تھا۔ اس کے علاوہ جس کارخانے میں میں کام کرتا تھا وہ بھی قریب تھا۔
مجھے شروع شروع میں یہاں بڑی تکلیف ہوئی۔اسکول اور کالج کی گزری ہوئی زندگی اپنے ہولناک ویرانوں سے میرا تعاقب کر رہی تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ ایک ایک اینٹ کی پتلی پتلی سیلی ہوئی دیواروں اور نیچی نیچی ٹوٹی ہوئی چھتوں کی چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں کےاندر رہنے والے اس دھوئیں اور بوکو کیسے برداشت کرتے ہیں، جو مضر صحت ہونے کے علاوہ بالائی طبقہ کے معطر تنفس کی گندگی کا بھی باعث ہے۔ لیکن کچھ دن بعد میں بھی اس کا عادی ہوگیا۔
مزدور اس دھوئیں اور بو کےعادی ہی نہیں تھے بلکہ دن بھر اسی میں گھٹ گھٹ کر کام بھی کرتے تھے اور شام کو اپنی پھٹی ہوئی جیبوں میں چند پیسے بجاتے ہوئے خوش خوش ان کوٹھریوں کی طرف چلے جاتے تھے جو دور سے بالکل مرغیوں کے ڈربے معلوم ہوتی تھیں اور ان میں خدا کی بھوکی اور ننگی مخلوق آباد تھی۔ لیکن وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ پیسے ایک آدمی کا بھی پیٹ نہیں بھرسکتے۔ بھوک سے بلکتے اور ماں کے ڈر سے بسورتے ہوئے بچوں کی مرجھائی ہوئی غربت زدہ صورتیں، چھوٹی سی تاریک اور گندی کوٹھری ،جو ایک روشن دان سے بھی محروم تھی اور چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی نوجوان بیوی، جب یہ سب چیزیں ایک ساتھ ان کی نگاہوں کے سامنے آتی تھیں تو وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ لیکن جب وہ اس بغاوت کے انجام کو یاد کرتے جو کئی سال پہلے انہیں کارخانوں کے مزدوروں نے کی تھی، تو صرف ایک آہ کرکے خاموش ہو جاتے تھے۔ بھوکے بچوں کو ڈانٹ کر سلا دیتے تھے۔ بیویوں کی شکایت آمیز باتوں کو سمجھا سمجھا کر محبت آمیز باتوں میں تبدیل کر دیتے تھے اور کوٹھریوں کی ٹوٹی ہوئی چھتوں کو نظر انداز کرنےکے لیے دن بھر کی تھکن کا بہانہ کرکے آنکھیں بند کرلیتے تھے۔
جس کارخانہ میں میں کام کرتا تھا، اسی میں ایک بوڑھی عورت بھی کام کرتی تھی۔ گو اس کی عمر اب ڈھل چکی تھی لیکن اس کا چہرا اور چھریرا جسم اب بھی اس حسن کا رازفاش کر رہا تھا جو عالم شباب میں انتہائی فتنہ انگیز ثابت ہوا تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اندر دھنس گئی تھیں، لمبے سفید بال جو دھوپ میں چاندی کےتاروں کی طرح چمکتے تھے اور باریک ہونٹ جو اس کے پوپلے منہ پر صرف دو جھریاں معلوم ہوتے تھے،یہ سب اس کے عہد شباب کی مٹی ہوئی تصویریں تھیں۔
وہ جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھی۔ کارخانے کے مالک نے ترس کھا کر اسے اپنے ہاں ایک معمولی سے کام پر رکھ لیا تھا، لیکن وہ اس سے کچھ اور کام لینا چاہتا تھا جس کے لیے عصمت مآب لچھمی تیار نہیں تھی۔ شباب کی وہ تمام رنگینیاں اس میں موجود تھیں جوایک عورت کی حشرانگیز تباہیوں کا باعث ہوسکتی ہیں اور اس کے حسن کو گناہوں کی لطیف ترین آلودگیوں کی آغوش میں سونپ سکتی ہیں۔ لیکن کارخانے کے مالک اور اس کی وہ تمام قوتیں جو اسے سرمایہ کے بدولت حاصل ہوئی تھیں، لچھمی کے استقلال کی مضبوط دیواروں کو نہ ہلا سکیں۔ کارخانے کے مالک نے اسے دولت کے سنہرے خواب اور مستقبل قریب میں آنے والے عیش و عشرت کے سبز باغ دکھائے، پھر اس کے برخلاف اس ہولناک زندگی کا تصور پیش کیا جو کارخانے کے باہر لچھمی کی منتظر تھی۔ اس نے کہا کہ اگر لچھمی اس کی خواہشات کی تکمیل نہیں کرسکتی تو کارخانے کے آہنی پھاٹک اسے ہمیشہ کے لیے باہر دھکیل دیں گے۔ لیکن لچھمی نے سرمایہ کی مادی قوتوں کی پروا کیے بغیر اس شراب کا ایک قطرہ بھی ضائع کرنے سے انکار کردیا جو قدرت نےاس کے شباب کے پیمانے میں بھردی تھی۔
جب خواہشات کی شکست ہونے لگتی ہے تو گناہوں کی فتح ہوتی ہے اور جب مکاریوں کا اثر زائل ہونے لگتا ہے تو جبر کے مندر سے تشدد کا خوفناک دیوتا ابروؤں پر بل ڈال کر باہر آجاتا ہے۔ آخر ظلم کے ہاتھوں نے غریب لچھمی کو اس حجلہ عشرت تک پہنچا دیا جہاں گناہوں کے فانوس میں ارتکاب جرم کی شمعیں جل رہی تھیں،جہاں سے کلیاں پھولوں کی شکل میں اور پھول بکھری ہوئی پنکھڑیوں کی صورت میں باہر آتے تھے۔ اس شبستان عشرت میں حسن کے بیسیوں گلدستے اور شباب کے سیکڑوں شیرازے بکھر چکے اور ہزاروں دوشیزائیں سسک سسک کر دم توڑ چکی تھیں۔ یہاں لچھمی کا بھی تشنہ کام شباب زہر آلود جاموں سے سیراب کیا گیا اور سرمایہ کی چوکھٹ پر غربت اور بے بسی کی ناقابل قبول قربانی چڑھادی گئی۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے ہنگامے معمولی معمولی باتوں کی آغوش میں پروان چڑھتے ہیں۔ صبح یہ خبر کارخانے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ کی طرح پھیل گئی کہ لچھمی کی بیوگی بھی غربت کے ساتھ سرمائے کی بھاری چکی میں پیس ڈالی گئی۔ ظلم کا خرمن برسوں سے جمع تھا ۔اس میں صرف ایک چنگاری کی ضرورت تھی جو بدنصیب لچھمی کے زخمی پہلو سے نکل کر کارخانے تک پہنچ گئی۔ رات بھر داد عشرت دینے والا مالک صبح اپنے زریں خواب کی بھیانک تعبیر دیکھ رہا تھا۔ مزدور حسب معمول خاموشی سے کارخانے کے اندر چلے گئے اور آہنی پھاٹک سے سنتری کو باہر دھکیل کر دروازہ بند کردیا۔ اب کارخانہ اور اس کا دفتر سب کچھ ان لوگوں کےرحم اور کرم کے ہاتھ میں تھا، جو کبھی خود رحم اور کرم کے محتاج تھے۔
جس وقت یہ خبر کارخانہ کے مالک کو معلوم ہوئی تو اس کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ یہ عجیب قسم کی ہڑتال تھی۔ اس کی مکاریوں اور ابلہ فریبیوں کے ترکش کا کوئی تیر ایسا نہ تھا جو اس نے استعمال نہ کیا ہو لیکن مزدوروں کے انتقام کے فولادی سینے پران کا کوئی اثر نہ ہوا۔آج برسوں کی پرانی شکایتیں پیش کی جا رہی تھیں۔ مدفون داستانیں دوبارہ اپنے حجلۂ عافیت سے باہر آرہی تھیں۔ کارخانے کا مالک مزدوروں کی تمام شرائط پوری کرنے کے لیے تیار تھا مگر ایک شرط ایسی تھی جو اس کے وقار کے نازک آبگینہ کے لیے کسی وزنی پتھر سے کم نہ تھی۔ وہ بیوہ لچھمی سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ اس میں تو اس کی عزت و آبرو کا سوال تھا، جو بے چاری لچھمی کی پرشباب زندگی سے بھی زیادہ قیمتی تھی۔
صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہوگئی لیکن معاملہ کسی طرح طے نہ ہوا بلکہ اس کا اثر دوسرے کارخانوں پر بھی پڑا، اور رات تک ان میں بھی مزدوروں کی حکومت تھی۔ وہ مشینیں جن کے پرزوں میں مزدوروں کے پسینہ نے تیل دیا تھا، آج بالکل خاموش تھیں اور وہ مالک جو اس وقت کسی کلب میں بیٹھے ہوئے شراب پیا کرتے تھے، کارخانوں کے سامنے سڑک پر ان معتوب مزدوروں کی طرح کھڑے ہوئے تھے جنہیں اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
رات کو نو بجے تک مسلح پولس اور فوج آگئی۔ یہ سرمایہ داری کا آخری حربہ تھا۔ لیکن قلعہ بند مزدوروں پر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کارخانوں کے بڑے بڑے پھاٹک توڑ دیے جائیں اور بندوقوں کی گولیاں باغی مزدوروں کو باہر نکال دیں۔ مزدوروں نے خطرے کا اندازہ عین وقت پر کرلیا لیکن اپنے کو ظلم اور استبداد کے آہنی پنجوں میں سونپنے کے بجائے آگ کے شعلوں کے سپرد کردینے کا ارادہ کر لیا۔ یکایک ایک کارخانے میں آگ کے ساتھ مزدوروں کا ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا جو کسی طرح دردانگیز آہوں سے کم نہ تھا۔ پھر کیا تھا، ایک کارخانے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں آگ لگ گئی اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مزدور اندر ہی اندر جل کر مرگئے۔ کہا جاتا ہے کہ اب جو کارخانے یہاں کام کر رہے ہیں انہیں کی راکھ کے ڈھیر پر بنائے گئے ہیں۔
میں اس قصہ کو یہاں آنے سے پہلے ہی سن چکا تھا لیکن اس کی تفصیل مجھے ایک بوڑھے مزدور بدلوسے معلوم ہوئی، جو اس کارخانے میں پچیس برس سے کام کر رہا تھا اور اب بوڑھی لچھمی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ لچھمی اس روز دن بھر کارخانے کے مالک ہی کے گھر رہی اور وہ خود بیمار تھا، ورنہ آج اس کی زندگی بھی خاک کا ایک ڈھیر ہوتی۔
’’لیکن کیا ان مزدوروں میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا جو کارخانے کے اندر بند تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے جواب دیا کہ ’’صرف چالیس پچاس مزدور ایسے تھے جو شعلوں کی تاب نہ لاکر باہر نکل آئے تھے۔ ان میں سے کچھ تو بندوقوں کی گولیوں کی نذر ہوگئے اور کچھ بھاگ گئے۔‘‘ اس کے بعد مجھے لچھمی کو دیکھنے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا۔ مجھے اس کے بڑھاپے کی آڑ میں سے اس کا شباب جھلکتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ کارخانوں کی لمبی اور بھدی چمنیوں سے دھواں مزدوروں کی آہوں کی طرح باہر آرہا تھا اور چاروں طرف جلی ہوئی راکھ کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ایک صبح کا ذکر ہے۔ جاڑا کڑاکے کا پڑ رہا تھا اور کہر نے سورج کی تیز روشنی کو دھندلا کردیا تھا۔ میں کارخانے جانے کے لیے گھر سے باہر نکلا۔ مزدور بھی اپنی تنگ کوٹھریوں سےنکل نکل کر کارخانوں کی طرف جا رہے تھے۔ سردی ان کے ان میلے کچیلے کپڑوں کی پرواہ کیے بغیر اندر گھس رہی تھی، جو پرانے ہو جانے کی وجہ سے نہ محض مسک گئے تھے بلکہ جہاں جہاں کسی دوسرے کپڑے کے پیوند لگے تھے وہاں سے پھٹ بھی گئے تھے۔ ان کی سردی سے ٹھٹھری ہوئی انگلیاں جو کارخانوں کے اندر کام کرتے کرتے سخت پڑگئی تھیں، ان بغلوں کے اندر گھسی جا رہی تھیں جن سے گرمیوں کے زمانے میں نہ معلوم کتنا پسینہ بہہ گیا تھا۔
میں ابھی اپنے مکان سے نکل کر دس پندرہ ہی قدم چلا تھا کہ کسی نے مجھے پیچھے سے آوازدی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو بدلو نظر آیا۔ وہ تیزی سے میری طرف آ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے پوچھا، ’’کیا ہے بدلو؟‘‘
’’بابوجی!‘‘ اس نے میرے قریب آکر کہا،’’ایک دو آنہ کی ضرورت ہے، دو تین دن میں دے دوں گا۔‘‘ یہ سن کر میرے ہاتھ جو خالی جیبوں میں پڑے ہوئے تھے، اندر ہی اندر جنبش کرنے لگے۔ دو آنے میرے پاس کہاں سے آئے۔ میری تنخواہ کے پندرہ روپے مشکل سے بیس بائیس دن کے لیے کافی ہوتے تھے، پھر ادھار کی نوبت آجاتی تھی۔ کالج میں تو میں چالیس پچاس روپیہ ماہوار اکیلا صرف کرتا تھا اور اب پندرہ روپے میں دو بچے اور ایک بیوی بھی شریک تھی۔ میں نے پوچھا، ’’اس وقت کیا ایسی ضرورت پڑگئی؟‘‘ اس پر اس نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور کہنے لگا، ’’لچھمی کو تین دن سے بخار آرہا ہے۔ آج اس کی حالت زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ اب تو منہ سے بول بھی نہیں پھوٹتا۔ اس لیے اسپتال لے جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بھائی اس وقت تو ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر بدلو کے چہرے پر مایوسی چھا گئی اور وہ کچھ کہے بغیر جانے لگا۔ لیکن میں نے یہ کہہ کر اسے روک لیا کہ ’’میرے ساتھ کارخانہ چلو، وہاں کسی سے پیسے دلوا دوں گا۔‘‘ بدلو میرے ساتھ ہولیا اور ہم دونوں کارخانے کی طرف چل دیے۔ ہمارے برابر سے رنگین موٹریں تیزی کے ساتھ گزر رہی تھیں، جن میں سے پٹرول کی باس اور سگارکی خوشبو اڑ رہی تھی۔ یہ دنیا کا انوکھا دستور ہے، جنہیں خدا نے ہاتھ پاؤں دیے ہیں، وہ مشینوں پر دوڑتے پھرتے ہیں اور جنہیں سواری کی ضرورت ہے انہیں ایک ٹوٹا ہوا یکہ بھی نصیب نہیں۔
کارخانے پہنچ کر میں نے ایک کلرک سے دو آنے لے کر بدلو کو دے دیے۔ وہ خوش خوش گھر چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ وہ لچھمی کی موت کی خبر سنانے آیا تھا۔ دو آنے پیسے اس کی مٹھی میں دبے ہوئے تھے۔ اس نے کہا، ’’بابو جی دو تین روپیہ کسی سے دلوا دیجیے تو لچھمی کا کریہ کرم ہو جائے۔‘‘
’’کیا وہ مرگئی!‘‘میں نے چونک کر پوچھا۔ بدلو نے کوئی جواب نہیں دیا اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ اس وقت اس کی حالت بہت زیادہ قابل رحم تھی۔ میں نے اسے دو روپے کے علاوہ ایک دن کی چھٹی بھی دلوا دی۔ وہ آہستہ آہستہ دفتر سے باہر نکل گیا اور میں بیٹھ کر کام کرنے لگا۔
شام کو جب میں کارخانے سے باہر نکلا تو سب سے پہلی چیز جس پر میری نظر پڑی وہ لچھمی کی ارتھی تھی، جس کے ساتھ دس پندرہ مزدوروں کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ کارخانوں کی مشینوں کی مہیب آوازیں، موٹروں کے ہارن اور سائیکلوں کی گھنٹیاں بدنصیب لچھمی کو آخری مرتبہ رخصت کرتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔