لوٹایاہواسوال
تسبیح خانے کے سامنے چمکیلی جوتیاں اتارکروہ اندرداخل ہوا۔ ایک لمبا سانس لیا۔ پنکھا تیز کرنے کوکہااورباتھ روم کے چپل پاؤں میں اڑس کرتولیہ کندھے پرڈالا۔ باقی سب مہمان تسبیح خانے میں دوزانو مؤدب بیٹھے تھے۔ ماحول میں تقدس اورپاکیزگی کی خوشبو تھی، بھینی بھینی سی۔ مہمانوں کی جدید ماڈل کی کاریں باہر کھڑی تھیں۔ ڈرائیور قبرستان کی مغربی سمت سمبل کے درختوں کے درمیان سگریٹ سلگائے گپیں ہانک رہے تھے۔ تسبیح خانے، مہمان خانے، کتب خانے اورمسجد کے قریب سگریٹ پینے کی ممانعت تونہیں تھی، لیکن ادب اوراحترام کی وجہ سے یہاں کوئی سگریٹ پینے کی گستاخی نہیں کرتاتھا۔ کہتے ہیں، ایک بارکوئی یہ جسارت کربیٹھاتھا اوراقتدارسے محروم ہوگیا۔ مہمانوں کی توقیرخانقاہ کے مکینوں کی گھٹی میں تھی۔
تسبیح خانہ ایک ایسامتبرک کمرہ تھا، جوصدیوں سے بزرگوں کی تسبیحات کاامین تھا۔ ایک کرنل جواپنے باطنی آشوب سے پناہ کے لیے آمقیم ہوا، خواب میں سلسلۂ نقشبندیہ کے بزرگوں کی زیارت کی۔ پھروہ جب بھی آیا، بوریانشینوں کے قدموں میں بیٹھ کر دُرِّنایاب پائے۔ ترقی کی وہ منازل سیاہ بالوں کے ساتھ طے کیں کہ کنپٹیاں سفید ہونے پربھی بدقّت نصیب ہوتی ہیں۔ ایک بریگیڈئیر نے جب اپنے ڈرائیور کوننگے فرش پربیٹھ کرساتھ کھانا کھانے کوکہا تواس نے جھجک کرکہا۔
سر..... میں.....؟
بیٹھ جاؤ، یہاں محمودوایازایک ہی صف میں ہوتے ہیں۔
عصرکاوقت تھا کہ وہ بزرگ جن کی وجہ سے پوراماحول تقدس کے ہالے میں تھا، اپنے زانوپرہاتھ رکھ کراٹھے اورسیدھی کمرکھڑے ہوگئے۔ دودھ جیسی داڑھی پرہولے سے ہاتھ پھیرا، جیسے اسے سہلارہے ہوں اورچائے کے لیے گھرتشریف لے گئے۔ مہمانوں میں بھنبھناہٹ ہونے لگی۔ باتوں کے لچھے کھل گئے۔
وہ تسبیح خانے سے ساتھ متّصل غسل خانے سے نکل کرمجھ سے بغل گیرہوگیا۔ اس کے چہرے پرسیاہ گھنی داڑھی، بوسکی کاکرتااورشلوار کے پائنچوں پرمچھلی کنڈا کڑھائی تھی۔ اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا۔ آمنے سامنے کے دونوں کونے باہم ملائے اوراس مثلث کوماتھے پررکھ کرسرکے پیچھے گرہ لگادی۔
آئیے، میں آپ کواپنے رشتہ داروں سے متعارف کراؤں۔ ایک درویش دسترخوان پر پیالیاں چن رہاتھا۔
ان سے ملئے، میرے سگے ماموں، ممبرقومی اسمبلی ہیں۔ بہت نفیس طبیعت پائی ہے۔ آپ رشوت کوسؤر کے گوشت کی طرح حرام سمجھتے ہیں۔ اس فقرے پرممبر کے چہرے پرایک لہرآئی اورپیشانی کی سلوٹوں میں ایک اورکااضافہ کرتی گئی۔ میرے ماموں کادل گداز ہے۔ ڈیرے پرآنے جانے والوں کاتانتا بندھارہتاہے۔ ان کے چہرے پرکبھی سلوٹ نہیں آئی۔
ممبر نے جیب سے اعلیٰ تمباکو کی زردڈبیانکالی۔ میں کانپ گیا کہیں اقتدارغروب ہونے کاوقت تونہیں آگیا، لیکن اس نے ڈبیااورپائپ جیب میں واپس رکھ لیے۔ شاید رسّی دراز تھی..... اور..... ان سے ملئے، چیئرمین ضلع کونسل..... تایا ہیں میرے.....! علاقے میں کوئی سڑک کچی نہیں رہی۔ سڑکیں، پلیاں اورکھال ان کے ارادوں کی طرح پکے ہوگئے ہیں۔ یہ صلہ رحمی کی برکات ہیں۔ اس کے تعارفی انداز میں عجیب سی عجلت تھی۔
ممبرقومی اسمبلی باہرنکل کردرویشوں سے باتیں کرنے لگے۔ مہمان تسبیح خانے میں دیواروں پرآویزاں انبیاء اورصوفیاء کے شجرۂ نسب دیکھ رہے تھے۔ صدیاں ان کے سامنے متشکل تھیں اوروہ مجھے اپنے خاندان سے متعارف کرانے میں مگن تھا۔
آپ کومعلوم ہے کیا، ہمارے خاندان میں کیسے کیسے گوہرہیں.....؟ ماموں اورتایا..... اب ان سے ملئے نا، میرے بہنوئی ایک بڑے ادارے کے چیئرمین، باذوق اورادب کے شناور.....!
یہاں پرموجودرشتہ داروں سے توآپ متعارف ہوگئے، کبھی ہمارے علاقے میں آئیے نا..... آپ حیران رہ جائیں گے..... دوماموں زاد مِل اونر ہیں اوربڑے بھائی ماہرِامراضِ قلب..... اﷲاﷲ، میراخاندان..... میراسلسلہ نسب..... داداجان کے گھوڑوں کااستھان، ایک سے ایک اعلیٰ نسل کاوہ ایرانی گھوڑا کہ جیسا پورے ملک میں اورکسی کے پاس نہیں۔ مشکی گھوڑی توانہوں نے افریقہ سے منگوائی ہے۔ ان کی دیکھ بھال کاالگ شعبہ ہے۔ باوردی خدمت گار، خوراک میں کئی کلوسیب، دودھ اورمیوہ جات، سالانہ مقابلے میں دوردور تک ہمارے گھوڑوں کی دھوم ہوتی ہے۔ مجھے توان کی نسل اور نسب کااتنا شوق ہوا کہ داداجان نے چند ماہ کے لیے بیرونِ ملک بھجوادیا۔ مجھے علمِ ہندسہ سے بھی گہری لگن ہے۔ میں نے اپنے خاندان کا نسب نامہ تیارکیا ہے۔ بڑے بھائی نے مجھے نساب کے نام سے موسوم کیا ہے۔
وہ بلاتکان بول رہا تھا.....
اورمیں اپنی ذات کی پہچان، اپنے انساب میں تلاش کررہاتھا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر خاتم الانبیائا تک ایک فریم میں ایسا شجرہ تھا جوشاخ درشاخ درخت کی صورت میں بنایاگیاتھا، صوفیاء کے تمام سلاسل کے شجرے آویزاں تھے۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیقؓ سے امیرالمومنین حضرت علیؓ اورحضرت امام جعفرصادقؓ سے جاری فیضان بایزیدبسطامی سے ہوتا ہوا ابولحسن خرقانی ابوعلی فارمدی، بابا محمد سماسی، یعقوب چرخی اورخواجہ ابوسعید کے میٹھے چشموں سے گزرتاموسیٰ زئی کے نخلستان میں دوست محمد قندھاری، عثمان دامانی اورخواجہ سراج الدین کی ٹھنڈی ہوائیں لے کر ابوالسعداحمدخان کی اس خانقاہ کے تسبیح خانے میں تصوفانہ خوشبو سے معطر ماحول بے خود کیے دے رہاتھا۔ میں اسے بتانا چاہ رہاتھا کہ ہماری پہچان کیا ہے؟ ہم کون ہیں.....؟ ہمارے اجداد کون تھے.....؟ ہمارا سلسلۂ نسب ہست وبود سے پرے کائنات کے خالق سے جا ملتا ہے، وہی اصل ہے، وہی کل.....! تم کیسے نساب ہو کہ گھوڑوں کے نسب نامے مرتّب کرتے پھر رہے ہو، تمہارے خاندان کی ناموری تمہارے کسی کام نہیں آئے گی۔ بقائے حیات اورسفرِآخرت میں تمہاراخاندان تمہارے ساتھ شریکِ سفرنہیں ہوگا۔ اپنی ذات کے غارِحرامیں اترو۔ شاید تم پرنفی اثبات کارازکھل جائے۔ مقدر سے یہاں آگئے ہوتواپنی ذات کاعرفان کیوں نہیں پالیتے.....؟ یہ تسبیح خانہ نہیں، یہاں صدیاں دھڑکتی اور سانس لیتی ہیں، یہاں علم وآگہی کے عرفان کی ندیاں رواں ہیں۔ یہاں صرف قلوب ہی ذکرنہیں کرتے بلکہ پتاپتا، بوٹابوٹا، اﷲاﷲ کے ورد سے زندہ ہے۔ تخلیقِ کائنات سے پچاس ہزارسال پہلے اﷲ نے روحوں سے سوال کیا تھا۔
الست بربکم؟
روحوں نے کہا
بلیٰ.....
یہ وہی تسلسل ہے۔ تسبیح خانہ تخلیقِ کائنات سے پچاس ہزارسال پہلے بھی موجود تھا، آج تم آئے ہو، کل کوئی اورآئے گا۔ اپنے آپ کوپہچان لو۔ اصحابِ صفہ کے چبوترے سے اس تسبیح خانے تک کائنات کاتسلسل ہے۔ یہ منزلیں روح کی بقاء کی علامت ہیں۔
لیکن وہ بولتارہا۔
اس کی روح کے کواڑپرممبرقومی اسمبلی، چیئرمین ضلع کونسل اورداداجان کے گھوڑوں کاپہرہ تھا۔
میرے چچاکئی سال سے فارن میں مقیم ہیں، ان کی دوبیویاں اورچارکوٹھیاں ہیں.....
میں اس کی گفتگومیں مخل ہوا۔
میری خواہش تھی، وہ اس درسے خالی نہ لوٹے۔
میرے بھائی، تم نساب ہو۔ تمہیں اپنے خاندان سے محبت ہے۔ کیا تمہارے علم میں ہے کہ عربوں میں کیسے کیسے نساب گزرے ہیں۔ ان کے حافظے قوی تھے۔ انہیں انساب وارحام ازبرتھے..... یہ شجرہ دیکھ رہے ہو.....؟
جی..... کتناخوبصورت فریم ہے؟ نفیس، گولڈن، عمدہ..... لاجواب فریم ہے۔ کمرے کی بناوٹ بھی قدیم طرز کی ہے..... اجداد کی یادگارہے نا..... کیسی اونچی چھت کی عمارتیں بنایاکرتے تھے۔
باہرسے ہارن کی آواز سنائی دی..... مثلث کھسک کراوپرہوگئی۔ اس نے انگوٹھے اور انگشتِ شہادت سے چٹکی بنائی اوراوپرکھسک جانے والے رومال کے کونے کوکھینچ کرنیچے کیا۔
اچھا، ہم چلتے ہیں..... کبھی ہمارے ہاں آئیے نا..... ضرور آئیے..... تاکید ہے، بھول نہیں جانا.....
وہ چمکیلی جوتیاں پہن رہاتھااورمیں سوچ رہاتھا کہ اس کے باطن کی ساری چمک توانہی چمکیلی جوتیوں تلے کچلی جارہی تھی۔ میں نے دھیرے سے اس کے کندھے پرہاتھ رکھا.....
بھائی..... آپ کے ماموں ممبرقومی اسمبلی ہیں۔
جناب آپ حکم کیجیے..... کوئی کام ہے توبتائیے نا..... کام یوں ہوجائے گا..... اس نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
کام نہیں ہے مجھے..... آپ کے ماموں ممبرقومی اسمبلی، تایا چیئرمین ضلع کونسل، ماموں زاد مِل اونرز اورداداجان کے گھوڑوں کااستھان، مجھے صرف یہ پوچھنا ہے کہ آپ کی ذاتی شناخت کیا ہے؟ اورنسبت کس سے ہے.....؟
اورجب میں یہ پوچھ رہاتھا تواپنے نسب کی آخری کڑی اندرہی اندرگن چکاتھا.....
اس کاایک پاؤں تسبیح خانے کے اندراوردوسراجوتی میں تھا۔ اس نے آنکھیں اٹھاکرمجھے دیکھا.....
اس کی پُتلیاں ٹھہری ہوئی تھیں۔
ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھے یوں محسوس ہوا، میراہی سوال اس کی ٹھہری پتلیوں سے منعکس ہوکرمیرے سارے وجود کواپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔