لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخ رو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا
ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش
لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا
کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے
آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا
تخیل کی حدوں کا تعین نہ ہو سکا
لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا
کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی
انساں مثال دست تہ سنگ رہ گیا
ہم ان کی بزم ناز میں یوں چپ ہوئے ظہیرؔ
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا