لمحۂ تخلیق بخشا اس نے مجھ کو بھیک میں
لمحۂ تخلیق بخشا اس نے مجھ کو بھیک میں
میں نے لوٹایا اسے اک نظم کی تکنیک میں
بام و در کی روشنی پھر کیوں بلاتی ہے مجھے
میں نکل آیا تھا گھر سے اک شب تاریک میں
فیصلے محفوظ ہیں اور فاصلے ہیں برقرار
گرد اڑتی ہے یقیں کی وادیٔ تشکیک میں
سی کے پھیلا دوں بساط فن پہ میں دامان چاک
ڈور تو گزرے نظر کی سوزن باریک میں
میں زیارت گاہ آگاہی سے لوٹ آیا ہوں دوست
پھول لایا ہوں الم کے ہدیۂ تبریک میں
بول میرے سر کو چھوتے چھوتے رہ جاتے ہیں سازؔ
آہ یہ کیسی کسر ہے درد کی تحریک میں