لکیریں کون کھینچے گا

لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
کہ وہ نقطہ ہے
لیکن دائرے کی قید سے باہر نکل جائے
تو اک پل میں
لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
کہ وہ جلتا ہوا اک لفظ ہے جس کو
کسی کے ہونٹ نے اب تک نہیں چوما
اگر چومے
لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
وہ اک ایسا تصور ہے اگر الفاظ کے ملبوس میں
ترسیل ہو جائے
تو موجیں ساگروں کی بانہہ سے آزاد ہو جائیں
پہاڑوں کی بلندی دیکھتے ہی دیکھتے پاتال کے اندر اتر جائے
چمکتا گرم سورج اپنے ہی قہر و غضب کی آگ میں جل کر پگھل جائے
زمین معدوم ہو جائے
لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
لیکن