لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے

لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے
کسی دشا میں اچھالا نہیں گیا مجھ سے


سڈول بانہوں میں بھرتا میں لوچ ساون کا
وہ سنگ موم میں ڈھالا نہیں گیا مجھ سے


میں خواب پڑھتا تھا ہمسائیگی کی ابجد سے
مگر وہ حسن خیالا نہیں گیا مجھ سے


وہی ہے میرے لہو میں چمک الوہی سی
سمے اجالنے والا نہیں گیا مجھ سے


فراق کہتی تھیں نیپالی ندیاں عامرؔ
مگر شکوہ ہمالہ نہیں گیا مجھ سے