لاہور سائنس میلے پر الیکٹریکل انجینیر جو سٹیفن ہاکنگ کی وھیل چئیر کی طرح کی وھیل چئیر بنانے کا سوچ رہاہے؟
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
یقیناً ارادے پختہ ہوں تو وسائل کی کمی مانع نہیں رہتی۔ لاہور سائنس میلے پر پاکستان انسیٹیوٹ آف اپلائیڈ سائنسز (PIAS) کا سٹال تھا۔ الف یار کی ٹیم کے ہمراہ میری ملاقات ابراہیم سے ہوئی جو الیکٹرکل انجینیرنگ کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ ابراہیم صاحب کے پروجیکٹ کو دیکھ کر مجھے بے حد مسرت ہوئی۔ وہ الیکٹرکل ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے انسانی دماغ اور انسانی جسم کے مختلف اعضا کے درمیان کسی مسئلے کی وجہ سے آنے والے تعطل کے حل میں مصروف تھے۔ اب آپ کو تو پتہ ہے اگر ہمارے دماغ اور جسم کے حصے کے درمیان کسی وجہ سے رابطہ ٹوٹے تو جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ یہ تو بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔
ابراہیم کا خیال تھا کہ دماغ اور جسم کے درمیان رابطہ ٹوٹے تو دو قسم کے مریض سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ جن کے جسم کے پٹھے خراب نہیں ہوتے اور کوئی حل نکال کر دماغ اور جسم کے حصے کے درمیان رابطہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس حل تھا کہ اگر تعطل آنے والی جگہ پر الیکٹروڈیعنی ایسا آلہ جس سے دماغ سے آنے والا کرنٹ گزر سکے، لگا دیا جائے تو دماغ اور جسم کے حصے کے درمیان رابطہ بحال ہو جائے گا۔ مریض کو تندرستی مل جائے گی۔ آپ کو تو پتہ ہے تندرستی کتنی بڑی نعمت ہے۔
دوسرے مریض ان کے نزدیک وہ تھے جن کے اندر مسئلہ زیادہ خراب ہوتا ہے۔ کچھ بھی کر کے دماغ اور جسم کے حصے کے درمیان رابطہ بحال نہیں ہو رہا ہوتا۔ ابراہیم صاحب کے نزدیک ان کے لیے ایسی وھیل چئیر بنائی جا سکتی ہے کہ وہ جو سوچیں وھیل چئیر اس طرح کام کرے۔ وہی وھیل چئیر جو آپ نے مشہور سائنس دان سٹیفن ہاکنگ کے پاس دیکھی ہوگی۔ اس وھیل چئیر پر مریض کو ہاتھ اور پاؤں چلانے کی ضرورت رہتی ہی نہیں۔ جو وہ سوچتا ہے کرسی اسی طرح کام کرتی ہے۔ وہ سوچتا ہے بائیں مڑا جائے۔ کرسی بائیں مڑ جاتی ہے۔ وہ سوچتا کرسی دائیں مڑے۔ وہ وہیں مڑ جاتی ہے۔
ہے ناں زبردست بات! پتہ چلا ہمارے نوجوان کس قدر باصلاحیت ہیں۔ اللہ ان کو ان کے ارادوں میں کامیاب کرے۔