لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے

لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے
یہاں دھوپ آ نہیں سکتی وہاں سائے نہیں جاتے


کسی محفل میں بھی ایسے چلن پائے نہیں جاتے
کہ بلوائے ہوئے مہمان اٹھوائے نہیں جاتے


زمیں پر پاؤں رکھنے دے انہیں اے ناز یکتائی
کہ اب نقش قدم ان کے کہیں پائے نہیں جاتے


تجھے اے دیدۂ تر فکر کیوں ہے دل کے زخموں کی
کہ بے شبنم کے بھی یہ پھول مرجھائے نہیں جاتے


جنوں والوں کو کیا سمجھاؤ گے یہ وہ زمانہ ہے
خرد والے خرد والوں سے سمجھائے نہیں جاتے


وقار عشق یوں بھی شمع کی نظروں میں کچھ کم ہے
پتنگے خود چلے آتے ہیں بلوائے نہیں جاتے


فضیلت ہے یہ انساں کی وہاں تک جا پہنچتا ہے
فرشتے کیا فرشتوں کے جہاں سائے نہیں جاتے


بس اتنی بات پر چھینی گئی ہے رہبری ہم سے
کہ ہم سے کارواں منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے


قمرؔ کی صبح فرقت پوچھئے سورج کی کرنوں سے
ستارے تو گواہی کے لئے آئے نہیں جاتے