لغزش پائے ہوش کا حرف جواز لے کے ہم
لغزش پائے ہوش کا حرف جواز لے کے ہم
خود کو سمجھنے آئے ہیں روح مجاز لے کے ہم
کرب کے ایک لمحے میں لاکھ برس گزر گئے
مالک حشر کیا کریں عمر دراز لے کے ہم
شام کی دھندلی چھاؤں میں پھیلے ہیں سائے دار کے
سجدہ کریں کہ آئے ہیں ذوق نماز لے کے ہم
دور افق پہ جا کہیں دونوں لکیریں مل گئیں
آئے تو تھے حضور دل ناز و نیاز لے کے ہم
رات ڈھلی ہے چاند گم دور جلے ہیں دو دیئے
راز تو ہے پہ کس کے پاس جائیں یہ راز لے کے ہم
رقص شرر میں کھو گئے برق کے دل سے مل گئے
لالہ و گل میں کھل گئے موت کا راز لے کے ہم
روئے سخن بدل گیا بڑھنے لگے ہیں فاصلے
آہ سکوت منجمد بیٹھے ہیں ساز لے کے ہم