لگے ہے آسماں جیسا نہیں ہے

لگے ہے آسماں جیسا نہیں ہے
نظر آتا ہے جو ہوتا نہیں ہے


تم اپنے عکس میں کیا دیکھتے ہو
تمہارا عکس بھی تم سا نہیں ہے


ملے جب تم تو یہ احساس جاگا
اب آگے کا سفر تنہا نہیں ہے


بہت سوچا ہے ہم نے زندگی پر
مگر لگتا ہے کچھ سوچا نہیں ہے


یہی جانا ہے ہم نے کچھ نہ جانا
یہی سمجھا ہے کچھ سمجھا نہیں ہے


یقیں کا دائرہ دیکھا ہے کس نے
گماں کے دائرے میں کیا نہیں ہے


یہاں تو سلسلے ہی سلسلے ہیں
کوئی بھی واقعہ تنہا نہیں ہے


بندھے ہیں کائناتی بندھنوں میں
کوئی بندھن مگر دکھتا نہیں ہے


ہو کس نسبت سے تم جاویدؔ صاحب
نہ ہونا تو ہے یاں ہونا نہیں ہے