لفظوں میں اک نئے سفر کا کرتا ہے آغاز بدن

لفظوں میں اک نئے سفر کا کرتا ہے آغاز بدن
نقطہ نقطہ پھیل کے مجھ کو دیتا ہے آواز بدن


ہر پل ٹوٹ بکھرنا خدشہ ٹھیس لگے تو کانپ اٹھتا ہے
شیشہ شیشہ روپ لیے ہے پتھر کا دم ساز بدن


اڑتا بادل ڈھلتی چھایا اک اک پل میں سو سو کایا
اڑتے روز و شب سے آگے کرتا ہے پرواز بدن


انجانی ان دیکھی صدائیں اکثر دستک دے جاتی ہیں
مجھ کو برہنہ کر دیتا ہے اکثر یہ غماز بدن


کتنے حاتم بھٹکے برسوں لوح طلسم راز لیے
پھر بھی اک اسرار کا صحرا پھر بھی ہے اک راز بدن


اک اک تار نفس سے اب تک لپٹی ہے اس لمس کی خوشبو
اک دن شاید ٹکرایا تھا مجھ سے کوئی شہناز بدن