لب خموش سے اس نے خوش آمدید کہا

لب خموش سے اس نے خوش آمدید کہا
اسی کو لوگوں نے پھر گفت اور شنید کہا


بہار لالہ و گل سے خزاں کی آہٹ تک
ہر ایک واقعہ موسم نے چشم دید کہا


جنوں میں پہلے تو اقرار کر لیا اس نے
جنوں کی بات کو پھر عقل سے بعید کہا


حسین تبصرہ موسم پہ جب تمام ہوا
تو اس نے کان میں چپکے سے کچھ مزید کہا


ترا خیال کیا ہم نے وصل سے تعبیر
تری گلی سے گزرنے کو بازدید کہا


نہ ہم سے پوچھا گیا ضبط کا سبب کوئی
نہ ہم نے درد کو اپنے کبھی شدید کہا


مری سرشت سخنؔ میں ہیں کچھ نئے اسلوب
نئی غزل نے مجھے بھی خوش آمدید کہا