لاکھ حربے سہی ہر وضع کے شیطان کے پاس

لاکھ حربے سہی ہر وضع کے شیطان کے پاس
ڈھال ایمان کی موجود ہو انسان کے پاس


ملک سمجھو اسے پامال بجا ہے اک دین
اب تو بس اک یہی دولت ہے مسلمان کے پاس


لگتے ہی تیر تمہارا گئی یوں جان نکل
بیٹھ کر جاتی گھڑی دو گھڑی مہمان کے پاس


آدمیت ہی تو بنیاد ہے ہر خوبی کی
ہو نہ یہ بھی تو دھرا کیا ہے پھر انسان کے پاس


صحبت یار ہے اے دل تجھے گھر بیٹھے نصیب
پھر ترا کام ہے کیا حاجب دربان کے پاس


خواہشیں نفس کی کرتے تو ہو پوری لیکن
اس سے بہتر نہیں آلا کوئی شیطان کے پاس


ہم نے دل بھر کے کچھ اس طرح نکالے ارماں
کہ پھٹکتا نہیں دل جا کے اب ارمان کے پاس


مت سمجھنا انہیں کم مایہ غنی ہیں یہ لوگ
کنز مخفی ہے ہر اک صاحب ایمان کے پاس


جبہ سائی کی بھی کچھ ہوگی تمہیں کو امید
گالیاں کھاتے ہو جا جا کے دربان کے پاس