لاکھ آوارہ سہی شہروں کے فٹ پاتھوں پہ ہم
لاکھ آوارہ سہی شہروں کے فٹ پاتھوں پہ ہم
لاش یہ کس کی لیے پھرتے ہیں ان ہاتھوں پہ ہم
اب انہیں باتوں کو سنتے ہیں تو آتی ہے ہنسی
بے طرح ایمان لے آئے تھے جن باتوں پہ ہم
کوئی بھی موسم ہو دل کی آگ کم ہوتی نہیں
مفت کا الزام رکھ دیتے برساتوں پہ ہم
زلف سے چھنتی ہوئی اس کے بدن کی تابشیں
ہنس دیا کرتے تھے اکثر چاندنی راتوں پہ ہم
اب انہیں پہچانتے بھی شرم آتی ہے ہمیں
فخر کرتے تھے کبھی جن کی ملاقاتوں پہ ہم