سات ستمبر کو کیا ہوا تھا؟؟ پارلیمنٹ کا متفقہ تاریخی فیصلہ
1953ء میں جاری ہونے والی ختم نبوت تحریک بالآخر 1974ء میں منتج ہوئی
1953ء میں جاری ہونے والی ختم نبوت تحریک بالآخر 1974ء میں منتج ہوئی
ہر نبی اور ہر آسمانی کتاب نے اپنی امت کو اپنے بعد پیش آنے والے حالات کے بارے میں اطلاعات دی ہیں۔کتب آسمانی میں یہ اطلاعات بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔گزشتہ مقدس کتب میں اگرچہ انسانوں نے اپنی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کر دیں ،اپنی مرضی کی بہت سی نئی باتیں ڈال کر تو اپنی مرضی کے خلاف کی بہت سی باتیں نکال دیںلیکن اس کے باوجود بھی جہاں عقائد کی جلتی بجھتی حقیقتوں سے آج بھی گزشتہ صحائف کسی حد تک منور ہیں وہاں آخری نبی ﷺ اور قیامت کی پیشین گوئیاں بھی ان تمام کتب میں موجود ہے۔
دنیا میں اربوں انسان پیدا ہوئے ، اور پیدا ہوتے رہے گے، لیکن آسمان کی اس چھت کے نیچے اور زمین کے اس سینے پر تمام معلوم اور نامعلوم جہانوں میں صرف ایک ہی ہستی ایسی ہے کہ جس کی حیات طیبہ، تاریخ انسانی کا بہترین عہد ہے۔ جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ سارے انسانوں کے سارے اوقات بھی اس کی گرد پا کو نہیں پہنچ سکتے۔ وہ بہترین دور، وہ مبارک اوقات، وہ قیمتی گھڑیاں، خاتم المرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے جس جوانِ رعنا سے آنکھیں ٹھنڈی کی ہیں ، وہ خوش رنگ، مہذب عادات، مخدوم و مطاع اور سراپا محبت ہے۔ بایں ہمہ مثلِ قمر چہرے کی رونق، اُبھرتے ہوئے نور کا منظر، گندمی رنگ میں ملاحت کی آمیزش وہی بچپن والی تھی۔ البتہ داڑھی کے بالوں کا حُسنِ امتیاز بعد کی خاصیات میں سے ہے۔
داعیانِ حق اور اقامت ِ دین کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں کے لیے مطالعہ سیرت کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر وہ یہ مہم سر نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ اقامت ِدین کا آخری نمونہ حضوؐر کی سیرت میں موجود ہے۔ اگر اس کو نگاہوں سے اوجھل کردیا جائے تو اقامت ِ دین کی جدوجہد کسی اور سمت مڑ جائے گی اور مڑنے والوں کو اس کا شعور بھی نہ ہوگا۔
آپﷺ کے اخلاق اور آپﷺ کی ہدایات سے سبق حاصل کرو اور کم از کم آپ کی تعلیم کا اتنا چرچا تو کرو کہ سال بھر تک اس کا اثر باقی رہے ۔ اس طرح یادگار مناؤ گے تو حقیقت میں یہ ثابت ہوگا کہ تم یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل سے عید سمجھتے ہو اور اگر صرف کھا پی کر اور دل لگیاں ہی کر کے رہ گئے تو یہ مسلمانوں کی سی عید نہ ہوگی ، بلکہ جاہلوں کی سی عید ہوگی ، جس کی کوئی وقعت نہیں۔
" روحیہ کا انتقال کب ہوا؟ " فرمانے لگے: " آج ہی مغرب سے تھوڑی دیر پہلے "۔ ہم نے کہا: " آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہ اطلاع دی ؟ کم از کم میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کا جلوس کسی اور دوست کے گھر سے نکال لیتے؟ " کہنے لگے: " جو کچھ ہوا، بہتر ہوا۔ اس سے ہمارے حزن و غم میں تخفیف ہو گئی اور سوگ مسرت میں تبدیل ہو گیا۔ کیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی کوئی اور نعمت درکار ہے! "
مولانا ظفر علی خان جری و بے باک صحافی ، رہنما اور با کمال شاعر تھے۔ ان کا اخبار ، زمیندار ، فرنگیوں اور شاطر ہندوؤں کی چالوں کو بے نقاب کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ مولانا نے بہت سی خوبصورت نعتیں بھی کہیں ، جو ان کی قادر الکلامی اور عشقِ رسول ، دونوں کی غمّازی کرتی ہیں۔
شیخ سعدیؒ کے مشہور نعتیہ قطعہ کی تضمین، گلہائے عقیدت بحضور سرورِ کونین ﷺ
نعت گوئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلّم سے والہانہ محبت و عقیدت کے اظہار کا نام ہے ۔ لیکن یہ بات دھیان میں رہنی چاہیے کہ با مقصد نعتیہ کلان زیادہ پر اثر ٹھہرتی ہے ، نیز اس کا اجر بھی سِوا ہو گا ۔ رسول اللہﷺ سے اپنی الفت کے اظہار کے علاوہ کوئی ان کی ذاتِ اقدس سے وابستہ کوئی آفاقی پیغام کا مضمون بھی نعت میں آئے تو بات بنے۔ مثلاً ، زیرِ نظر نعت میں ، یہ شعر ختمِ نبوّت کا پیغام دے رہا ہے ۔ " بہرِ تصدیقِ سندنامۂ نسبت، عشاق ، مُہرِ خاتم کے نگینے کی طرف دیکھتے ہیں "