کیوں پریشان ہوا جاتا ہے دل کیا جانے

کیوں پریشان ہوا جاتا ہے دل کیا جانے
کیسا پاگل ہے کہ پانی کو بھی صحرا جانے


میں وہ آوارہ کہ بادل بھی خفا ہیں مجھ سے
تو زمانے کو بھی ٹھہرا ہوا لمحہ جانے


دھوپ کی گرد فضاؤں میں دلوں میں تابوت
ہر نفس خود کو بس اک آگ کا دریا جانے


اوس کی بوند بھی اب سنگ صفت لگتی ہے
پھول کے باغ کو دل آگ کا دریا جانے


رات پتھر میں ڈھلی چاند بھی کالا نکلا
ایسے منظر کو بھی اب آنکھ تماشا جانے


بے صدا گنبد احساس ہوا مہر بہ لب
پھول کے درد کا قصہ کوئی کانٹا جانے


دن کی خندق کا دھواں شہر سے آگے بھی گیا
کس طرح گھر کا پتہ کوئی پرندہ جانے