کیوں کر بیان حسن ہو کیوں کر غزل کہیں

کیوں کر بیان حسن ہو کیوں کر غزل کہیں
گھائل تری نگاہ کے اے جاں کہاں ہیں ہم
وہ دل کہاں جو ڈھونڈھتا پھرتا تھا تیر کو
گویا کہ ایک اتری ہوئی سی کماں ہیں ہم