کیوں

تم جو قاتل نہ مسیحا ٹھہرے
نہ علاج شب ہجراں نہ غم چارہ گراں
نہ کوئی دشنۂ پنہاں
نہ کہیں خنجر سم آلودہ
نہ قریب رگ جاں
تم تو اس عہد کے انساں ہو جسے
وادی مرگ میں جینے کا ہنر آتا تھا
مدتوں پہلے بھی جب رخت سفر باندھا تھا
ہاتھ جب دست دعا تھے اپنے
پانو زنجیر کے حلقوں سے کٹے جاتے تھے
لفظ تقصیر تھے
آواز پہ تعزیریں تھیں
تم نے معصوم جسارت کی تھی
اک تمنا کی عبادت کی تھی
پا برہنہ تھے تمہارے
یہی بوسیدہ قبا تھی تن پر
اور یہی سرخ لہو کے دھبے
جنہیں تحریر گل و لالہ کہا تھا تم نے
ہر نظارہ پہ نظارگی جاں تم کو
ہر گلی کوچۂ محبوب نظر آئی تھی
رات کو زلف سے تعبیر کیا تھا تم نے
تم بھلا کیوں رسن و دار تک آ پہنچے ہو
تم نہ منصور نہ عیسیٰ ٹھہرے