کیوں آ گئے ہیں بزم ظہور و نمود میں
کیوں آ گئے ہیں بزم ظہور و نمود میں
آزاد مرد ہو کے رہے ہم قیود میں
سالک ہے کیوں تخیل ترک وجود میں
نقش صور کا رنگ ہے تیرے شہود میں
جو آ گئے تجلیٔ تنزیہہ ذات میں
محدود کس طریق سے ہوں گے حدود میں
راز دردن پردہ ز رندان مست پرس
سالک ہے کیوں حجاب شہود و وجود میں
ارنی و لن ترانی کا سب راز کھل گیا
کیا نشۂ غریب ہے شرب الیہود میں
اے گل جہاں میں جن کو ترا عشق ہو گیا
وہ خار سے کھٹکتے ہیں چشم حسود میں
مشہور خلق جو ہے وہ مقبول حق نہیں
کیوں احمقوں کو ناز ہوا ہے نمود میں
طاعت نہیں ہے وہ کہ جو ہو بے حضور قلب
اے شیخ کیا دھرا ہے رکوع و سجود میں
ہے بو العجب یہ زمزمۂ صوت سرمدی
کس طرح آئے معرض گفت و شنود میں
صوفی یہ سہو محو ہوئے سد باب انس
کیا انبساط کار گہہ ہست و بود میں
تار نفس سے ہے تن خاکی بسا ہوا
ہے عنکبوت لپٹی ہوئی تار و پود میں
صوفی یہی ہے نور سواد حجاب قلب
ظلمت ہوئی جو سینۂ سوزاں کے دود میں
فیض نگاہ رہبر کامل کا ہے اثر
ساقیؔ ہے محو طاعت رب ودود میں