کیا سے کیا آخر جنون فتنہ ساماں بن گیا

کیا سے کیا آخر جنون فتنہ ساماں بن گیا
برق و طوفاں بن گیا باغ و بہاراں بن گیا


کل تلک جس خواب کی تعبیر رقص و رنگ تھی
اب وہ خواب زندگی خواب پریشاں بن گیا


چل رہی تھی سانس جب تک راز اندر راز تھا
اور جب تار نفس ٹوٹا تو طوفاں بن گیا


خون دل کا ایک قطرہ ایک حرف ناتمام
پڑھنے والوں کے لئے تاریخ دوراں بن گیا


بڑھ گئی جب اپنی حد سے جرأت آوارگی
خود جنوں منت کش چاک گریباں بن گیا


دور رس بھی کس قدر تھی جلنے والے کی نظر
بڑھتے بڑھتے داغ دل آخر چراغاں بن گیا


بات ان کی رہ گئی سارا گلہ بھی دھل گیا
سامنے جب آ گئے وہ میں پشیماں بن گیا


زندگی آسان بھی تھی اور تھی دشوار بھی
دل بقدر ظرف رامشؔ جلوہ ساماں بن گیا