کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں
تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
پھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں
تیرے لیے تقدیر مری جنبش ابرو
اور میں ترا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں
صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت انساں
میں جنت انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں
دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرۂ خوں ہے
کس آس پہ اے سنگ سر راہ چلی ہوں
جس ہاتھ کی تقدیس نے گلشن کو سنوارا
اس ہاتھ کی تقدیر پہ آزردہ رہی ہوں
قسمت کے کھلونے ہیں اجالا کہ اندھیرا
دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں