کیا اس کا گلا کیجے اسے پیار ہی کب تھا
کیا اس کا گلا کیجے اسے پیار ہی کب تھا
وہ عہد فراموش وفادار ہی کب تھا
اس نے تو سدا پوجے ہیں اڑتے ہوئے جگنو
وہ چاند ستاروں کا پرستار ہی کب تھا
ہم ڈوب گئے جاگتی راتوں کے بھنور میں
ہاتھ اس کا ہمارے لیے پتوار ہی کب تھا
آموں کی حسیں رت کے سوا بھی تو وہ کوکے
لیکن کسی کوئل کا یہ کردار ہی کب تھا
آواز جو میں دوں تو کسی اور کو چھو لے
اس آنکھ مچولی سے وہ بیزار ہی کب تھا
تم اس کو برے نام سے یارو نہ پکارو
یہ نام اسے باعث آزار ہی کب تھا
مشہور زمانہ ہیں قتیلؔ اس کی اڑانیں
وہ دام محبت میں گرفتار ہی کب تھا