کیا فروغ بزم اس مہ رو کا شب صد رنگ تھا

کیا فروغ بزم اس مہ رو کا شب صد رنگ تھا
شمع نہیں شرمندہ اور مہ دیکھ رخ کو دنگ تھا


کیوں نہ رکھوں داغ دل پر جیسے لالہ در چمن
خال غیر فام اس رخسار پر گل رنگ تھا


شرمگیں آنکھوں سے جس جانب کو پڑتی ہے نظر
نازکی شمشیر سے بسمل پہ عرصہ تنگ تھا


قتل میں عاشق کے شب کو کیا تجھے تاخیر ہے
شور غل تھا دھوم تھی اور اژدہام آہنگ تھا


آہ زاری پر کسی کی وہ نہ کرتا تھا خیال
گوش زد آواز اس دم ڈھولک و مردنگ تھا


ہو گیا محو تماشا غیر کی محفل میں کیوں
غیر تیرے دل مرا جیوں شیشہ وقف سنگ تھا


آفریدیؔ عشق کے باعث حیا جاتی رہی
کیا ہوا تیرے تئیں دعویٰ جو نام و ننگ تھا